کیا حق اور اجماع صرف چار اماموں تک محدود ہے – ابو راکان شاھد الإسلام

:الحمد لله ربِّ العالمين، والصلاةُ والسلام على مَنْ أرسله الله رحمةً للعالمين، وعلى آله وصحبِه وإخوانِه إلى يوم الدِّين، أمَّا بعد

حق بات مذاہب اربعہ میں محصور نہیں ہے، بلکہ حق بات وہی ہے جس پر شرعی نصوص ہوں۔

قال ابن تيمية رحمه الله تعالى :۔

“وَلَمْ يَقُلْ أَحَدٌ مِنْ عُلَمَاءِ الْمُسْلِمِينَ إِنَّ الْحَقَّ مُنْحَصِرٌ فِي أَرْبَعَةٍ مِنْ عُلَمَاءِ الْمُسْلِمِينَ كَأَبِي حَنِيفَةَ، وَمَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، كَمَا يُشَنِّعُ بِذَلِكَ الشِّيعَةُ عَلَى أَهْلِ السُّنَّةِ، فَيَقُولُونَ: إِنَّهُمْ يَدَّعُونَ أَنَّ الْحَقَّ مُنْحَصِرٌ فِيهِمْ. بَلْ أَهْلُ السُّنَّةِ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّ مَا تَنَازَعَ فِيهِ الْمُسْلِمُونَ وَجَبَ رَدُّهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ، وَأَنَّهُ قَدْ يَكُونُ قَوْلٌ مَا يُخَالِفُ قَوْلَ الْأَرْبَعَةِ: مِنْ أَقْوَالِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ لَهُمْ بِإِحْسَانٍ، وَقَوْلِ هَؤُلَاءِ الْأَرْبَعَةِ مِثْلُ: الثَّوْرِيِّ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَاللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَإِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ وَغَيْرِهِمْ أَصَحُّ مِنْ قَوْلِهِمْ”۔

(منهاج السنة 2 | 369–370)

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:۔

علماء امت میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ حق صرف چار اماموں ابو حنیفہ مالک شافعی اور احمد تک محدود ہے جیسا کہ شیعہ لوگوں کا الزام ہیں اھل سنت کے خلاف، اور وہ کہتے ہیں اھل سنت کا دعوی ہے کہ حق انہی چار اماموں میں منحصر ہے۔ بلکہ اھل سنت کا مسلمانوں کے درمیان مختلف فیہ مسائل کے بارے میں اتفاق ہے کہ ان کو لازمی طور پر اللہ اور رسول کی طرف لوٹایا جائے گا ، اور کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی قول جو ائمہ اربعہ کے مخالف ہو وہ صحابہ یا تابعین کا قول بھی ہو سکتا ہے اورکبھی ان کے مقابل ان چار ائمہ مثلا: ثوری ،اوزاعی ، لیث بن سعد اور اسحاق بن راھویہ اور دیگر ائمہ کا فرمان زیادہ صحیح ہو سکتا ہے۔

قال ابن تيمية رحمه الله تعالى :۔

اتفق أهل العلم – أهل الكتاب والسنة – على أن كل شخص سوى الرسول فإنه يؤخذ من قوله ويترك ، إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فإنه يجب تصديقه في كل ما أخبر ، وطاعته في كل ما أمر ، فإنه المعصوم الذي لا ينطق عن الهوى ، إن هو إلا وحي يوحى “۔

(منهاج السنة 6 / 190 – 191 )

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:۔

کتاب و سنت سے واقف تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر شخص کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہر خبر کی تصدیق، اور ہر حکم کی تعمیل کرنا ضروری ہے، کیونکہ آپ ہی وہ شخصیت ہیں کہ جو بھی آپ کی زبان سے لفظ نکلتا ہے وہ خواہش پرستی نہیں ہوتی بلکہ وہ وحی ہوتی ہے”۔

قال ابن تيمية رحمه الله تعالى :۔

“أهل السنة لم يقل أحد منهم إن إجماع الأئمة الأربعة حجة معصومة ، ولا قال: إن الحق منحصر فيها ، وإن ما خرج عنها باطل ، بل إذا قال: من ليس من أتباع الأئمة ، كسفيان الثوري والأوزاعي والليث بن سعد ومن قبلهم ومن بعدهم من المجتهدين قولا يخالف قول الأئمة الأربعة ، رد ما تنازعوا فيه إلى الله ورسوله ، وكان القول الراجح هو القول الذي قام عليه الدليل”۔

” منهاج السنة ” (3 / 412)

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:۔

اہل سنت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ ائمہ اربعہ کا اجماع حجت اور غلطی سے پاک ہے، بلکہ کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ حق بات انہی چار مذاہب میں ہے، چنانچہ جو ان چاروں کی مخالفت کریگا وہ باطل ہے، لہذا اگر کوئی فقیہ جو ان چاروں ائمہ کرام کے پیرو کاروں میں سے نہیں ہے مثلاً: سفیان ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد، یا ان سے پہلے اور بعد کا کوئی مجتہد ائمہ اربعہ کی مخالفت میں کوئی بات کہہ دے تو اس بات کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں دیکھا جائے گا، اس لیے راجح صرف وہی بات ہوگی جو دلیل کی بنیاد پر کہی جائے گی۔

أسألُ الله أَنْ يُصْلِحَ حالَ المسلمين، ويُزَكِّيَ قلوبَهم وأعمالَهُم ممَّا يُخالِفُ صفاءَ الدِّين، وأَنْ يُوفِّقَهم للتمسُّك بكتابِ ربِّهم وسُنَّةِ نبيِّهم محمَّدٍ صلَّى الله عليه وسلَّم، ولاتِّباعِ سبيلِ المؤمنين؛ إنه وَلِيُّ ذلك والقادرُ عليه۔

هذا ما عندي والعلم عند الله تعالى، وآخِرُ دعوانا أنِ الحمدُ لله ربِّ العالمين، وصلَّى الله على نبيِّنا محمَّدٍ وعلى آله وصحبِه وإخوانِه إلى يوم الدِّين، وسلَّم تسليمًا۔

Share:

Leave a Reply