ایک رکعت وتر بھی سنت ایک معترض غلام نبی کشافی کو جواب ۔ محترم شہزاد احمد پرہ

ایک رکعت وتر بھی سنت ایک معترض غلام نبی کشافی کو جواب

 غلام نبی کشافی نامی ایک آدمی صحافتی ماحول کے زیر اثر کیا کچھ کہتے جارہے ہے ۔ اللہ رحم کرے اس قسم کی زبان اور طنزیہ لب لہجے سے جو انہوں نے جواب میں ذکر کیا۔

 پہلی بات: کشافی صاحب خود کو اب مفتی جیسا باور کررہے ہے۔ جواب کی صورت میں مگر بے ادبی کے ساتھ ساتھ۔

دوسری بات: نماز وتر دین اسلام کے اجتھادی مسائل میں سے ایک ہے ۔جس پر بات کرنے والے کا سینہ وسیع اور کشادہ ہونا چاہے ۔مگر جب تعصب انسان کو گھیر لیتا ہے تو انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ پھر یہ تند لہجہ سامنے اتا ہے ۔

تیسری بات: محترم غلام نبى كشافى صاحب کی تنگ نظری پر غور کیجیے۔

  ان کی منرجہ ذیل عبارت ملاحظہ کیجیے:۔

   موجودہ دور کے اکثر مسلمان عبادات کی طرف عدم رغبت کی وجہ سے اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کہیں سے ان کو عبادات میں رعایت اور تخفیف کی روایتیں مل جائیں ، تاکہ وہ ان پر عمل کرکے جلدی جلدی عبادات سے فارغ ہوجائیں۔

   کشمیر میں ایک مخصوص طبقہ کا اسی کی طرف زیادہ رجحان پایا جاتا ہے ، چنانچہ اس طبقہ سے وابستہ نوجوان صرف ایک رکعت پر اکتفا کرتے ہیں ، اور اسے مسنون بتا کر ایک طرح سے عشاء کی نماز سات رکعات پڑھ کر بھاگ جاتے ہیں ، لیکن میرے نزدیک یہ ایک طرح سے نماز میں چوری یا صرف من پسند چیزوں پر عمل کرنا ہے ، جو کہ صحیح دینی مزاج کے صریحاً خلاف ہے۔ 

یہ ہے کشافی صاحب کی علمی بصیرت اس اقتباس سے مندرجہ چیزیں سمجھ آتی ہیں:۔

موجودہ دور کے اکثر لوگ دین مین رعایت وتخفیف چاہتے ہے۔

 کشمیر مین ایک طبقہ نے یہی رجحان اپنایا ہے۔

 اس طبقہ کے نوجوان صرف ایک رکعت وتر پر اکتفا کرتے ہے۔

 یہ نماز میم ایک چوری ہے۔

 یہ من پسند طرز عبادت ہے۔

یہ اس کو مسنون قرار دیتے ہے۔

 میرا سوال ہے کشافی صاحب سے

  صرف ایک رکعت کو ہی کو سنت کس نے کہا ۔ حوالہ دیا جاے۔ جب کہ ہم اس کے قائل ہے کہ کم سے کم ایک رکعت بھی ثابت ہے ۔جب کہ اسکے علاوہ ۳ ۵ ۷ ۹ جیسے رکعات بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔

آپ نے کہا یہ چند نوجوانوں نے سنت قرار دیا ۔جب کہ ہم آگے اپ کو صحابہ اور ائمہ کے اقوال بھی ملینگے۔ ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟

 اگر یہ چوری ہے تو جن صحابہ ائمہ سے یہ ثابت ہے۔ کیا وہ بھی چوری کرتے تھے؟

 اگر یہ من پسندی ہے تو جن صحابہ وائمہ سے یہ ثابت ہے کیا وہ بھی من پسندی کرتے تھے؟ 

صحابہ کرام جن سے ایک پرھنا ثابت ہے کیا وہ بھی دین میں رعایت اور تخفیف چاہتے تھے؟

 اس کے بعد کشافی صاحب کا لب و لہجہ بدل گیا۔ ذرا پڑھے ان کی عبارت۔

“مین نے خود دو ہفتے قبل ۔۔۔۔۔۔”

اس اقتباس سے مندرجہ ذیل نقاط سمجھ آتے ہیں۔

کشافی صاحب نے جمعہ اسی طبقہ کی مسجد مین پڑھا۔ زرا اب صراحت کرتے کشافی صاحب یہ مسجد کون سی تھی کہاں پر تھی ۔ تاکہ ہم بھی رابطہ کرتے اس خطیب صاحب سے۔

خطیب کے اندازہ گفتگو ان کو بالکل بھی پسند نہیں آیا۔ یہ اپنی پسند ہے اس کو وتر کے جواب مین کیا کام ہے ۔ صرف ایک بڈھاس ہے۔ ورنہ اس کے لہجے کو یہان کیا کام؟

جمعہ خطبہ کا پورا وقت ایک وتر پر تھا۔

 آپ سے سوال ہے مسجد ،جگہ،خطیب، تاریخ، اور جمعہ کا وقت اذان تا نماز ہمارے سامنے بیان کرے تاکہ ہم بھی وہ رکاڈنگ منگواے۔ ورنہ یہ اک الزام ہے سینے کی بڈھاس؟

اف اف کشافی کے الفاظ سنئے (پورا وقت ایک رکعت وتر پڑھنا اوٹ پٹانگ دلیلوں سے ثابت کرنے مین برباد کیا۔ اور اس کے واہیات تقریر سے میرے سر مین درد ہونا شروع ہوگیا تھا)۔

قارئین، آپ نے دیکھا کیسا لہجہ ہے۔

 پورا وقت برباد کیا۔

اوٹ پٹانگ دلیلیں کس کو کہا اسنے زرا وہ پیش کرے؟

واہیات تقریر،  سوال ہے مجھے ان واہیات سے اگاہ کیجیے کیا اپ اس کے پیس کردہ دلایل کو واہیات کہہ رہے ہے؟ کیا وہ قران سنت کے بغیر بھی کچھ کہ رہا تھا؟ یا اپ کا واہیات سے کیا مطلب ہے؟ 

آپ کو سر درد شاید اسی لیے ہوا کہ اپ کا سینہ اتنا تنگ ہے کہ آپ اپنی رائے کو ہی تھوپنا چاہتے ہو؟ کس کس دلیل یا بات سے اپ کا سردرد ہوا۔ یہ تنگ ذہنی کی ایک بین علامت ہے۔

کیا اپ خطبہ کے بعد خطیب مذکور سے بات نہیں کرسکتے تھے؟ 

بحر حال یہ سب چیزیں کشافی صاحب کے تعصب ہٹ دھرمی اور تنگ ذہنی اور طنزیہ پن کو عیاں کرتی ہیں۔ 

 تیسرا مسلہ: کیا اہلحدیث وتر نماز صرف ایک رکعت ہی سنت کہتے ہے یا پرھتے ہیں؟

جواب: بالکل بھی نہیں بلکہ وتر کے بارے میں تمام طریقوں پر عمل کرنے کو سنت اور پرھنے کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں؟

 ایک بھی سنت ہے کم سے کم تین بھی سنت ہے اسی طرح ۵۷ اور ۹ عدد رکعات بھی ثابت ہے۔

چوتھا مسلہ: ایک رکعت وتر بھی ثابت ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائے

1 :حديث 

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما  بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔

صلاۃ اللیل مثنی مثنی، فإذا خشی أحدکم الصبح صلی رکعۃ واحدۃ، توتر لا ما قد صلی۔

رات کی نماز دو، دو رکعت ہے، جب تم میں سے کوئی صبح ہونے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے۔ وہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی۔

(صحیح بخاري : ٩٩٠، صحیح مسلم : ٧٤٩)

2 :حديث

حديث صحیح مسلم (٧٤٩/١٥٨) کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:۔

ویوتر برکعة من آخر اللیل

رات کے آخری حصے میں ایک وتر پڑھ لے۔

3 :حديث

 حديث صحیح مسلم (٧٥٢، ٧٥٣) میں سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔

الوتر رکعة من آخر اللیل

وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت کا نام ہے۔

4 :حديث

صحیح مسلم (٧٤٩/١٥٩) کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں:۔

صلاۃ اللیل مثنی مثنی، فإذا رأیت أن الصبح یدرکک، فأوتر بواحدۃ

رات کی نماز دو، دو رکعت ہے، جب تو دیکھے کہ صبح ہونے کو ہے تو ایک وتر پڑھ لے۔

5 :حديث

 سیدہ عائشہ رضى الله عنها بیان کرتی ہیں:۔

إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی باللیل إحدی عشرۃ رکعۃ، یوتر منھا بواحدۃ، فإذا فرغ منھا اضطجع علی شقہ الأیمن، حتی یأتیہ المؤذن، فیصلی رکعتین خفیفتین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں سے ایک وتر ادا فرماتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو جاتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مؤذن آتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو ہلکی سی رکعتیں (فجر کی سنتیں) ادا فرماتے۔

(صحیح بخاری : ٩٩٤، صحیح مسلم : ٧٣٦، واللفظ لہ،)

1 :حديث

 سیدنا ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔

الوتر حق، فمن شاء أوتر بخمس، ومن شاء أوتر بثلاث، ومن شاء أوتر بواحدۃ

وتر حق ہیں، جو چاہے سات پڑھے، جو چاہے پانچ پڑھے، جو چاہے تین پڑھے اور جو چاہے ایک پڑھے۔

سنن ابی داو،د : ١٤٢٢، سنن النسائی : ١٧١١، سنن ابن ماجہ : ١١٩٠، وسندہ، صحیح

نوٹ:۔

اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ  (٢٤١٠) اور حافظ ابن الملقن (البدر المنیر : ٤/٢٩٦) نے ”صحیح” قرار دیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ  نے بخاری و مسلم کی شرط پر ”صحیح” قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے ان کی موافقت کی ہے۔

7 :حديث

 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں:۔

أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم أوتر برکعة 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر ادا فرمایا۔

(سنن الدار قطنی : ١٦٥٦، وسندہ، صحیح)

8 :حديث

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں:۔

أوتر برکعة 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر پڑھا۔

(صحیح ابن حبان : ٢٤٢٤، وسندہ، صحیح)

9 :حديث

سيدنا معاويہ رضی اللہ عنہ کا عمل اور فقہ :۔

ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا۔ ان کے پاس سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما  کے غلام بھی موجود تھے۔ انہوں نے آکر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما  کو بتایا تو آپ رضی اللہ عنھما  نے فرمایا:۔

( دعه، فإنه قد صحب رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم )

ان کو چھوڑو، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں۔

(صحیح البخاری : ٣٧٦٤)

صحیح بخاری ہی کی ایک روایت (٣٧٦٥) میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما  نے فرمایا:۔

إنہ فقیه 

وہ فقیه ہیں۔

 یہ عمل صحابہ کی موجودگی میں ہوا اس پر وہی سوال بھی اٹھا اور جواب بھی ملا ۔ یہ روایت حکما مرفوع کے زمرے میں ہے ۔ کیونکہ واضح طور پر آیا ہے۔

 (أنه قد صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم) 

عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:۔

إن معاویۃ أوتر برکعۃ، فأنکر ذلک علیہ، فسئل ابن عباس، فقال : ( أصاب السنة)۔ 

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک وتر پڑھا، ان پر اس چیز کا اعتراض کیا گیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما  سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: انہوں نے سنت پر عمل کیا ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٩١، وسندہ، صحیح)

       عمل الصحابة:۔

سيدنا عثمان بن عفان رضى الله عنه كا عمل:۔

 عبدالرحمن تیمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ آج رات قیام اللیل پر مجھ سے کوئی سبقت نہ لے جائے گا۔ میں اٹھا تو اپنے پیچھے ایک آدمی کی آہٹ پائی۔ وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔ میں ایک طرف ہٹ گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، قرآن کریم شروع کیا اورختم کر دیا، پھر رکوع کیا اور سجدہ کیا۔ میں نے سوچا: شیخ بھول گئے ہیں۔ جب آپ رضی اللہ عنہ نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کیا: اے امیر المومنین! آپ نے ایک ہی رکعت وتر ادا کی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔ یہ میرا وتر ہے۔

شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٢٩٤، سنن الدار قطنی : ٢/٣٤، ح : ١٦٥٦۔١٦٥٨، وسندہ، حسن

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا عمل:۔

حضرت عبداللہ بن مسلمہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز عشاء پڑھائی، پھر مسجد کے ایک کونے میں ایک رکعت ادا کی۔ میں آپ کے پیچھے گیا اور عرض کیا: اے ابو اسحاق! یہ کیسی رکعت ہے؟ فرمایا:۔

  (وتر، أنام علیه)

یہ وتر ہے جو پڑھ کر میں سو رہا ہوں۔

عمرو بن مرۃ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات مصعب بن سعد کو بتائی تو انہوں نے کہا: سعد رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔

(شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٢٩٥، وسندہ، حسن)

سیدناسعد رضى الله كا عمل:۔ 

حضرت عبداللہ بن ثعلبہ بن صغیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:۔

 سیدنا سعد رضی اللہ عنہ جو کہ بدر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، نماز عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا کرتے تھے۔ اس سے زیادہ نہ پڑھتے تھے، حتی کہ رات کے وسط میں قیام کرتے تھے۔

معرفۃ السنن والآثار للبیھقی : ٢/٣١٤، ح : ١٣٩٠، صحیح البخاری : ٦٣٥٦، وسندہ، صحیح

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ:۔

چناچہ جناب نافع رحمہ اللہ ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما  کے بارے میں بیان کرتے ہیں:۔

(أنه کان یوتر برکعة)

آپ رضی اللہ عنھما  ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔

(الاوسط لابن المنذر : ٥/١٧٩، وسندہ، صحیح)

 عبد الله بن عمر رضى الله عنه كا جواب :۔

  ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما  سے وتر کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ اگر میں سفر میں ہوں تو کیا کروں؟ آپ رضی اللہ عنھما  نے فرمایا:۔

رکعۃ من آخر اللیل

رات کے آخری حصے میں ایک رکعت پرھ لو۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٣٠١، وسندہ، صحیح)

 سلف صالحین سے اور بھی عملی وقولی نمونے سندا ثابت ہیں۔ 

سوال: اب کشافی صاحب خود سوچے ان صحابہ کا عمل کس زمرے میں آتا ہے ۔ من پسندی یا نماز کی چوری ؟؟؟ 

 علماء کے چند اقوال :۔ 

 امام شافعی رحمہ اللہ سے :۔

چناچہ ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:۔

سُئِلَ الشَّافِعِیُّ عَنِ الْوِتْرِ؟ : أَیَجُوزُ أَنْ یُوتِرَ الرَّجُلُ بِوَاحِدَۃٍ لَیْسَ قَبْلَہَا شَیْء ٌ؟ قَالَ : نَعَمْ، وَالَّذِی أَخْتَارُ أَنْ أُصَلِّیَ عَشْرَ رَکَعَاتٍ، ثُمَّ أُوتِرَ بِوَاحِدَۃٍ، فَقُلْتُ لِلشَّافِعِیِّ : فَمَا الْحُجَّۃُ فِی أَنَّ الْوِتْرَ یَجُوزُ بِوَاحِدَۃٍ؟، فَقَالَ : الْحُجَّۃُ فِیہِ السُّنَّۃُ وَالْآثَارُ

امام شافعی رحمہ اللہ  سے وتر کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آدمی ایک وتر ایسے پڑھے کہ اس سے پہلے کوئی نماز نہ ہو تو کیا جائز ہے؟ فرمایا: ہاں، جائز ہے، لیکن میں پسند یہ کرتا ہوں کہ دس رکعات پڑھ کر پھر ایک وتر پڑھوں۔ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ  سے پوچھا: ایک وتر کے جائز ہونے کی کیا دلیل ہے؟ فرمایا: اس بارے میں سنت رسول اور آثار سلف دلیل ہیں۔

(السنن الصغرٰی للبیھقي : ٥٩٣، وسندہ، حسن)

 امام عطاء بن جریر بن حازم ابى رباح رحمه الله 

 جرير بن حازم بیان کرتے ہیں:۔

سألت عطاء ا : أوتر برکعۃ؟ فقال : نعم، إن شئت

میں نے امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ  سے سوال کیا کہ کیا میں ایک رکعت وتر پڑھ کیا کروں؟ فرمایا: ہاں اگر چاہے تو پڑھ لیا کر۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٩٢، وسندہ، صحیح)

 امام ان سيرين رحمه الله :۔

چناچہ ابن عون بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ  سے پوچھا کہ اگر آدمی سو گیا اور صبح ہو گئی تو کیا صبح ہونے کے بعد وہ ایک رکعت وتر پڑھ لے؟ فرمایا:۔

 لا أعلم بہ بأسا

میں اس میں کچھ حرج نہیں سمجھتا۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٩٠، وسندہ، صحیح)

اسی طرح اج بھی اہل علم کا ایک، تین، پانچ اور سات یا نو رکعت وتر پڑھنا جائز اور سنت میں سے شمار کرتے ہیں۔ 

 حنفی علماء کی گواہی:۔

 مشہور حنفی عالم جناب عبدالحئی لکھنوی صاحب لکھتے ہیں:۔

وقد صح من جمع من الصحابۃ أنھم أوتروا بواحدۃ، دون تقدم نفل قبلھا 

صحابہ کرام کی ایک جماعت سے یہ بات صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے پہلے کوئی نفل پڑھے بغیر ایک رکعت وتر ادا کیا۔

(التعلیق الممجد للکنوی : ١/٥٠٨)

 علامہ سندھی حنفی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:۔

ھذا صریح فی جواز الوتر بواحدۃ

یہ حدیث ایک وتر کے جائز ہونے میں واضح ہے۔

(حاشیۃ السندی علی النسائی : ٢/٣٠)

جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں:۔

نعم، ثابت عن بعض الصحابۃ بلا ریب

ہاں، بعض صحابہ کرام سے بلا شک و شبہ ایک وتر پڑھنا ثابت ہے۔

العرف الشذی للکشمیری : ٢/١٢

جناب عبدالشکور فاروقی لکھنوی دو بندی لکھتے ہیں:۔

یہ (صرف تین وتر پڑھنا) مذہب امام صاحب کا ہے۔ ان کے نزدیک ایک رکعت کی وتر جائز نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ  کے نزدیک وتر میں ایک رکعت بھی جائز ہے۔ دونوں طرف بکثرت احادیث صحیحہ موجود ہیں۔

(علم الفقہ از عبدالشکور اللکنوی : حصہ دوم : ١٨٢)

تنبیہ نمبر1:۔

بعض الناس پر لازم ہے کہ وہ اپنے امام سے ایک رکعت وتر کا عدم جواز بسند صحیح ثابت کریں۔

تنبیہ نمبر 2 :۔

جس روایت میں تین وتر کا ذکر ہے، اس سے ایک یا پانچ رکعت وتر کی نفی نہیں ہوتی۔

جناب خلیل احمد سہارنپوری دیو بندی لکھتے ہیں:۔

وتر کی رکعت احادیث صحاح میں موجود اور عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنھما  اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما  وغیرہما صحابہ کرام اس کے مقر اور مالک رحمہ اللہ و شافعی رحمہ اللہ و احمد رحمہ اللہ کا وہ مذہب ، پھر اس پر طعن کرنا ان سب پر طعن ہے، کہو اب ایمان کا کیا ٹھکانہ؟۔۔۔

(براھین قاطعہ : ص٧)

 مشہور مقلد جناب محمود الحسن دیو بندی لکھتے ہیں:۔

(عبدالسمیع رامپوری مؤلف انوار ساطعہ نے) وتر کی ایک رکعت پڑھنے والوں پر سخت الفاظ کے ساتھ طعن کیا ہے۔ خیر اور تو وہی پرانا رونا ہے، جو مؤلف مذکورہ (عبدالسمیع) کے سلف کر چکے تھے، مگر وتر کی ایک رکت پڑھنے والوں پر جس کے بارے میں احادیث صحاح موجود ہیں اور بعض ائمہ مثل امام شافعی و امام احمد وغیرہ] کا وہ مذہب ہے۔ زبان درازی کرنا مؤلف مذکور کا ہی حصہ ہے۔ یہ جدا قصہ ہے کہ علمائے حنفیہs کا یہ مذہب بوجہ اور دلائل کے نہ ہو، مگر فقط اس امر سے ایک دوسرے پر طعن نہیں کر سکتا۔ (الجھد المقل فی تنزیہ المعز والمذل از محمود الحسن دیو بندی : ص ١٧)۔

اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کہتے ہیں:۔

بعض لوگوں کے نزدیک وتر ایک رکعت ہے اور بعض کے نزدیک تین ہیں اور بعض کے نزدیک پانچ ہیں اور ان سب میں تاویل مذکور جاری ہو سکتی ہے، مگر میرے نزدیک عمدہ طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تینوں طرح ثابت ہے۔ (تقریر ترمذی از تھانوی : ١٣٦)۔

بریلوی حنفی مکتبہ فکر کی گواہی کہ ایک رکعت وتر بھی صحیح ہے ۔

جناب احمد سعید کاظمی بریلوی لکھتے ہیں:۔

یعنی علامہ کرمانی نے فرمایا کہ حضرت قاسم بن محمد (سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے) کے قول ان کلا کے معنیٰ یہ ہیں کہ وتر ایک رکعت، تین رکعت اور پانچ رکعتیں اور سات وغیرہ سب جائز ہیں۔ (مقالات کاظمی، حصہ سوم : ٤٨٨)۔

جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں:۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم وتر ایک رکعت پڑھتے تھے، تین یا پانچ پڑھتے تھے، سات پڑھتے تھے تو گیارہ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ (جاء الحق از نعیمی، جلد دوم : ص ٢٦٣)۔

 یہ ہے وہ دلائل جن سے کشافی صاحب کی تنگ ذہنی اور عصبیت عیاں ہوتی ہے ۔

 اب سوال ہے کشافی صاحب سے :۔

 کیا یہ سب امام غلط تھے؟

 مجتھدین میں سے خاص کر امام احمد بن حنبل امام الشافعى يا اسى طرح مالك . اور باقى ا ئمہ دین جو ایک وتر کو بھی مانتے اور سنت کہتے ہے۔ 

مشورہ:۔

 اب شدت سے سر پیر مارنے سے بہتر ہے اس اجتھادی مسلے کو دلائل کی روشنی میں سمجھ کر اپنایا جاے ۔ اور سینہ کشادہ کرکے سنت والے عمل کو مطعون نہ کرے۔

قَالَتْ: «مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا»۔ (صحیح مسلم ج۱ ص ۲۰۴)۔

کہ آپﷺ رمضان اور غیر رمضان میں چار چار رکعت خوبصورت طویل قرأت کے ساتھ پڑھ کر تین رکعت پڑھتے تھے۔

تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ایسی تین رکعت سے منع کیا ہے جو نماز مغرب کے مشابہ ہو۔ اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر سے بھی ہوتی ہے۔ جو محلیٰ ابن حزم میں ہے:۔

عَنْ ابنِ عبَّاس أنَّه قَالَ الوِترُ کصَلوة المغْرِبِ اِلَّا انه لا یقعد الا فِی الثَّالِثَة۔ (ج۳ص۴۶)۔

سلف صالحین کا مسلک:۔

بہت سارے سلف سے بھی بالتصریح مروی ہے کہ وہ تین رکعت وتر ایک ہی تشہد سے ادا فرمایا کرتے تھے۔

 الامام شمس الحق ارقام فرماتے ہیں:۔

قَدْ فَعَلَهُ السَّلَفُ أَيْضًا فَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ مِنْ طَرِيقِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ يَنْهَضُ فِي الثَّالِثَةِ مِنَ الْوِتْرِ بِالتَّكْبِيرِ يَعْنِي إِذَا قَامَ مِنْ سُجُودِهِ الرَّكْعَةَ الثَّانِيَةَ قَامَ مُكَبِّرًا مِنْ غَيْرِ جُلُوسٍ لِلتَّشَهُّدِ۔ (عون المعبود: ج۱ص۵۳۵)۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وتروں میں دوسری رکعت سے فارغ ہو کر اللہ اکبر کہ کر سیدھے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور تشہد کے لئے نہیں بیٹھتے تھے۔

 حضرت طاؤس بن کیسان عطاء بن ابی رباح اور ایوب وغیرہ کا بھی یہی عمل تھا۔

عَنْ طَاؤسٍ أنَّهُ کَانَ یُوترُ بثَلاثٍ لَا یَقعُد بَینھُنَّ۔ (عون المعبود: ص۵۳۵ج۱)۔

حضرت طاؤس تین وتر پڑھا کرتے تھے اور درمیانی التحیات نہیں بیٹھتے تھے۔

 وعن عطاء انه کان یوتر بثلاث رکعات لا یجلس فیھن ولا یشھد الا فی اخرھن۔ (عون المعبود: ج۱ص۵۳۵)۔

وقال حماد کان أیوب یصلی بنا فی رمضان وکان یوتر بثلاث لا یجلس الا فی اخرھن۔ (عون المعبود: ج۱ص۵۳۵)۔

حماد کہتے ہیں کہ حضرت ایوب رضی اللہ عنہ ہمیں رمضان میں وتر کی نماز پڑھایا کرتے تھے اور تین رکعت وتر میں درمیان کا التحیات نہیں بیٹھے تھے۔

تطبیق کا دوسرا انداز:۔

حضرت مولانا عطاء اللہ بھوجیانیؒ ارقام فرماتے ہیں:۔

ہاں اگر دو تشہد سے تین وتر پڑھے جائیں تو دو سلام سے۔ چنانچہ بعض محدثین نے مذکورہ بالا احادیث مین یوں بھی تطبیق دی ہے۔ امام محمد بن نصر مروزی جو امام احمد کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں ان کا عندیہ بھی یہی ہے۔ ان کے نزدیک متصل تین رکعت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچیں۔

قیام اللیل میں ہے:۔

لَمْ نَجِدْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرًا ثَابِتًا صَرِيحًا أَنَّهُ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ مَوْصُولَةٍ۔ (نیل الأوطار: ج۳ص۳۶)۔

اور اکثر شوافع نے اسی کو ترجیح دی ہے۔

امام نووی شرح مہذب میں فرماتے ہیں:۔

وَإِذَا أَرَادَ الْإِتْيَانَ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ فَفِي الْأَفْضَلِ أَوْجُهٌ الصَّحِيحُ أَنَّ الْأَفْضَلَ أَنْ يُصَلِّيَهَا مَفْصُولَةً بِسَلَامَيْنِ لِكَثْرَةِ الْأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ فِيهِ وَاليه ذَھَبَ الاِمامُ احمد۔

جب تین رکعت کا ارادہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ دو سلام ہوں، اس لئے کہ بہت سی صحیح حدیثیں اسی طرح کی ہیں۔

اس کی دلیل میں حسب ذیل دو حدیثیں پیش کی جاتی ہیں۔

 عن ابن عمر قال: “كان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يفصل بين الوتر والشفع بتسليمة ويسمعناها”۔

رواہ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ السَّكَنِ فِي صَحِيحَيْهِمَا وَالطَّبَرَانِيُّ مِنْ حَدِيثِ إبْرَاهِيمَ الصَّائِغِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ بِهِ وَقَوَّاهُ أَحْمَدُ۔ (تلخیص الحبیر: ج۲ص۱۶)۔

حضرت عبداللہ بن عمررضی  اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ وتر اور اس کے قبل کی دو رکعتوں کے درمیان سلام کے ساتھ فاصلہ کر لیا کرتے تھے۔

 عَن عَائشة قالت کَانَ رسول اللہﷺ فِی الْحُجرۃِ وَأنَا فِی البَیتِ ینفصِلُ عَن الشَّفعِ والوِترِ بِتَسلیم یسمعنا۔ (أخرجه احمد وفيه انقطاع لکن یکفی للتائد۔)۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ حجرہ میں نماز پڑھتے تھے اور میں گھر میں ہوتی، آپ وتر اور پہلی دو رکعتوں میں فاصلہ کرتے تھے۔ سلام کے ساتھ اور اپنا سلام ہمیں سناتے۔ (فتاوی علمائے حدیث: ۱۹۲)۔

میں کہتا ہوں بعض صحابہ وتابعین اسی کے قائل ہیں۔ امام ترمذیؒ اپنی جامع میں تصریح فرماتے ہیں:۔

وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ: رَأَوْا أَنْ يَفْصِلَ الرَّجُلُ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ وَالثَّالِثَةِ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ۔ (جامع ترمذی مع التحفة الاحوذی)۔

دروس علمية تفسير البغوى:۔

قَالَتْ: «مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا» (صحیح مسلم ج۱ ص ۲۰۴)۔

کہ آپﷺ رمضان اور غیر رمضان میں چار چار رکعت خوبصورت طویل قرأت کے ساتھ پڑھ کر تین رکعت پڑھتے تھے۔

تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ایسی تین رکعت سے منع کیا ہے جو نماز مغرب کے مشابہ ہو۔ اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر سے بھی ہوتی ہے۔ جو محلیٰ ابن حزم میں ہے:۔

عَنْ ابنِ عبَّاس أنَّه قَالَ الوِترُ کصَلوة المغْرِبِ اِلَّا انه لا یقعد الا فِی الثَّالِثَة۔ (ج۳ص۴۶)۔

سلف صالحین کا مسلک:۔

بہت سارے سلف سے بھی بالتصریح مروی ہے کہ وہ تین رکعت وتر ایک ہی تشہد سے ادا فرمایا کرتے تھے۔

 الامام شمس الحق ارقام فرماتے ہیں:۔

قَدْ فَعَلَهُ السَّلَفُ أَيْضًا فَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ مِنْ طَرِيقِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ يَنْهَضُ فِي الثَّالِثَةِ مِنَ الْوِتْرِ بِالتَّكْبِيرِ يَعْنِي إِذَا قَامَ مِنْ سُجُودِهِ الرَّكْعَةَ الثَّانِيَةَ قَامَ مُكَبِّرًا مِنْ غَيْرِ جُلُوسٍ لِلتَّشَهُّدِ۔ (عون المعبود: ج۱ص۵۳۵)۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وتروں میں دوسری رکعت سے فارغ ہو کر اللہ اکبر کہ کر سیدھے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور تشہد کے لئے نہیں بیٹھتے تھے۔

 حضرت طاؤس بن کیسان عطاء بن ابی رباح اور ایوب وغیرہ کا بھی یہی عمل تھا۔

عَنْ طَاؤسٍ أنَّهُ کَانَ یُوترُ بثَلاثٍ لَا یَقعُد بَینھُنَّ۔ (عون المعبود: ص۵۳۵ج۱)۔

حضرت طاؤس تین وتر پڑھا کرتے تھے اور درمیانی التحیات نہیں بیٹھتے تھے۔

وعن عطاء انه کان یوتر بثلاث رکعات لا یجلس فیھن ولا یشھد الا فی اخرھن۔ (عون المعبود: ج۱ص۵۳۵)۔

وقال حماد کان أیوب یصلی بنا فی رمضان وکان یوتر بثلاث لا یجلس الا فی اخرھن۔ (عون المعبود: ج۱ص۵۳۵)۔

حماد کہتے ہیں کہ حضرت ایوب رضی اللہ عنہ ہمیں رمضان میں وتر کی نماز پڑھایا کرتے تھے اور تین رکعت وتر میں درمیان کا التحیات نہیں بیٹھے تھے۔

تطبیق کا دوسرا انداز:۔

حضرت مولانا عطاء اللہ بھوجیانیؒ ارقام فرماتے ہیں:۔

ہاں اگر دو تشہد سے تین وتر پڑھے جائیں تو دو سلام سے۔ چنانچہ بعض محدثین نے مذکورہ بالا احادیث مین یوں بھی تطبیق دی ہے۔ امام محمد بن نصر مروزی جو امام احمد کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں ان کا عندیہ بھی یہی ہے۔ ان کے نزدیک متصل تین رکعت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچیں۔

قیام اللیل میں ہے:۔

لَمْ نَجِدْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرًا ثَابِتًا صَرِيحًا أَنَّهُ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ مَوْصُولَةٍ۔ (نیل الأوطار: ج۳ص۳۶)۔

اور اکثر شوافع نے اسی کو ترجیح دی ہے۔

امام نووی شرح مہذب میں فرماتے ہیں:۔

وَإِذَا أَرَادَ الْإِتْيَانَ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ فَفِي الْأَفْضَلِ أَوْجُهٌ الصَّحِيحُ أَنَّ الْأَفْضَلَ أَنْ يُصَلِّيَهَا مَفْصُولَةً بِسَلَامَيْنِ لِكَثْرَةِ الْأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ فِيهِ وَاليه ذَھَبَ الاِمامُ احمد۔

جب تین رکعت کا ارادہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ دو سلام ہوں، اس لئے کہ بہت سی صحیح حدیثیں اسی طرح کی ہیں۔

اس کی دلیل میں حسب ذیل دو حدیثیں پیش کی جاتی ہیں۔

 عن ابن عمر قال: “كان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يفصل بين الوتر والشفع بتسليمة ويسمعناها”۔

رواہ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ السَّكَنِ فِي صَحِيحَيْهِمَا وَالطَّبَرَانِيُّ مِنْ حَدِيثِ إبْرَاهِيمَ الصَّائِغِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ بِهِ وَقَوَّاهُ أَحْمَدُ۔ (تلخیص الحبیر: ج۲ص۱۶)۔

حضرت عبداللہ بن عمررضی  اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ وتر اور اس کے قبل کی دو رکعتوں کے درمیان سلام کے ساتھ فاصلہ کر لیا کرتے تھے۔

عَن عَائشة قالت کَانَ رسول اللہﷺ فِی الْحُجرۃِ وَأنَا فِی البَیتِ ینفصِلُ عَن الشَّفعِ والوِترِ بِتَسلیم یسمعنا۔ (أخرجه احمد وفيه انقطاع لکن یکفی للتائد۔)۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ حجرہ میں نماز پڑھتے تھے اور میں گھر میں ہوتی، آپ وتر اور پہلی دو رکعتوں میں فاصلہ کرتے تھے۔ سلام کے ساتھ اور اپنا سلام ہمیں سناتے۔ (فتاوی علمائے حدیث: ۱۹۲)۔

میں کہتا ہوں بعض صحابہ وتابعین اسی کے قائل ہیں۔ امام ترمذیؒ اپنی جامع میں تصریح فرماتے ہیں:۔

وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ: رَأَوْا أَنْ يَفْصِلَ الرَّجُلُ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ وَالثَّالِثَةِ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ۔ (جامع ترمذی مع التحفة الاحوذی)۔

بعض صحابہ وتابعین اسی کے قائل ہیں کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اور تیسری رکعت الگ پڑھے۔ امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔

علامہ ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں:۔

القول الفيصل في هذا المقام أن الأمر في ما بين الصحابة مختلف، فمنهم من كان يكتفي على الركعة الواحدة، ومنهم من كان يصلّي ثلاثاً بتسليمتين، ومنهم من كان يصلي ثلاثاً بتسليمة، والأخبار المرفوعة أيضاً مختلفة بعضها شاهدة للاكتفاء بالواحدة، وبعضها بالثلاث، والكل ثابت، لكن أصحابنا قد ترجَّحت عندهم روايات الثلاث بتسليمة بوجوه لاحت لهم، فاختاروه وحملوا المجمَل على المفصل۔

قول فیصل اس مقام میں یہ ہے کہ اس امر میں صحابہ مختلف ہیں، بعض تو صرف ایک ہی رکعت پر اکتفا کرتے تھے۔ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین رکعت دو سلام سے پڑھتے تھے اور کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین وتر ایک سلام سے پڑھتے تھے اور مرفوع حدیثیں بھی اس مسئلہ میں مختلف ہیں۔ لہٰذا یہ سب طریقے جائز اور ثابت ہیں لیکن ہمارے حنفی علماء نے بعض وجوہ جو ان کے پیش نظر ہیں کی وجہ سے وہ تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کو راجھ کہتے ہیں اور مجمل روایات کو مفصل روایات پر محمول کرتے ہیں۔

مگر حضرت علامہ ابوالحسنات کا یہ فرمان کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک تین رکعتوں کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنا راجح ہے، ازروئے احادیث صحیحہ دعویٰ بلا دلیل ہے۔ ہم پہلے لکھ آئے کہ حضرت امام محمد بن نصر مروزی جو کہ امام احمد کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں:۔

لم نجد عن النبیﷺ خبراثابتا سریحا أنه أوتر بثلاث موصولة قال نعم ثبت عنه أنه اوتر بثلاث لکن لم یبین الراوی ھل ھی موصولة أو مفصوله۔

ہم رسول اللہﷺ کی ایسی صحیح اور صریح حدیث نہیں پاتے کہ جس میں صراحت کے ساتھ ذکر ہو کہ رسول اللہﷺ نے تین رکعت وتر ایک سلام کے ساتھ پڑھے ہوں۔

اگرچہ حافظ عراقی نے امام محمد بن نصر کا تعاقب کیا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک ان کا تعاقب کوئی درخواعتناء نہیں۔ نفس جواز اور چیز ہے۔ بحث افضل اور غیر افضل میں ہے اور احادیث صحیحہ صریحہ کے مطابق افضل یہی ہے کہ تین رکعت وتر دو سلاموں کے ساتھ پڑھے جائیں یا پھر علی الاقل تین رکعت وتر ایک تشہد (التحیات) کے ساتھ پڑھے جائیں تا کہ نماز مغرب کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔

ہمارے الشیخ محترم حافظ محمد محدث گوندلویؒ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ سے تین وتر دو طرح آئے ہیں: ایک اس طرح کہ درمیانی تشہد نہ بیٹھے اور آخر میں سلام پھیرے۔ جیسا کہ فتح الباری میں ہے مستدرک حاکم کی روایت کے نیچے علامہ ذہبیؒ نے لکھ ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ دو رکعت ادا کر کے سلام پھیر کر تیسری رکعت الگ پڑھے۔ جیسا کہ فتح الباری میں ہے اور یہی بہتر ہے۔ کیونکہ ایک حدیث میں تین رکعت پڑھنے کی ممانعت آئی ہے۔ جیسا کہ فتح الباری میں ہے اس حدیث کا صحیح مطلب یہی ہے کہ ایک سلام سے تین رکعت نہ پڑھے۔ (فتاوی علمائے حدیث: ج۳ص۱۹۳)۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

(فتاویٰ محمدیہ ج1ص500محدث فتویٰ)

 یہ تھا کشافی کا دوسرا مسلہ کہ سنت اور اقرب الی السنة یہی ہے ان لے نزدیک کہ تین وتر میں دوسری رکعت پر قعدہ کرکے تیسرے پر سلام پھیرے ۔

 امید ہے کشافی اور اس جیسے کم علم مفتیان آگے احتیاط برتیں گے ان شاء اللہ۔

 الحمد للہ وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وعلی آلہ وسلم۔

 الباحث ؛ شہزاد احمد پرہ ۔

Share:

This Post Has 3 Comments

    1. Sameer Ahmad Bhat

      کشافی نے آج آپ کے اس پوسٹ کے جواب ممیں اپنے فیس بک پر پوسٹ کیا ہے

  1. Sameer Ahmad Bhat

    کشافی نے آج آپ کے اس پوسٹ کے جواب ممیں اپنے فیس بک پر پوسٹ کیا ہے

Leave a Reply