عذاب الہی سے بچنے کے آسان اسباب – محترم شہزاد احمد پرہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسلام علیکم 

دوستو تم سب لوگ فرض تو پڑھتے ہی ہو چلو آج سے ایک نفل بھی ادا کریں۔

نماز تو عذاب الہی سے بچاتی ہے ۔

قال الإمام محمد بن نصر المروزى رحمه الله۔

لا نعلم طاعة يدفع الله بها العذاب مثل الصلاة”۔”

(تعظيم قدر الصلاة)

ترجمہ: امام محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ فرما تے ہے۔

نماز جیسی کوی اطاعت ہم نہیں جانتے کی جسکے کرنے سے اللہ عذاب ٹال دیتا ہے۔

قارئین کرام:۔
ایک سنت جو چھوڑ دی گی ہے۔اور جس کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا۔۔حالانکہ تاکیدی سنت ہے۔ اپنے ساتھیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی ۔۔علماء سلف کی زندگی میں یہ موجود تھی۔

ایک ایسی نماز جو بہت بہت اہمیت کی حامل اور دن کی نوافل میں عظیم رتبہ والی نماز ہے
جسکا نام “صلاة الضحی ہے”۔

اس نماز کے بارے میں ميں چاہتا ہوں آج آپ کے ساتھ 7 سات قسم کی باتیں کروں اور تم اسکا جواب دو۔۔

پہلی بات:۔ الله كی کفایت کا زریعہ

حدیث قدسی ہے راوی خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
تمہارا رب فرماتا ہے:۔

” ابْنَ آدَمَ ارْكَعْ لِي مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍأَكْفِكَ آخِرَهُ”
ترجمہ:۔
اے آدم کے بیٹے تو میرے لئے دن کے ابتدائی حصہ میں چار ( 4 ) رکعات پڑھ، میں تمہیں دن کی انتہائی وقت میں کافی ہو جاؤنگا۔
(سنن الترمزى، كتاب الصلاة، باب ما جاء فى صلاة الضحى)
اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔

کافی ہونے کا مطلب کیا ہے اس بارے میں صاحب تحفة الأحوذي رحمه اللہ نے امام طیبی رحمہ اللہ کا قول لایا ہے۔

أَكْفِك شُغْلَك وَحَوَائِجَك وَأَدْفَع عَنْك مَا تَكْرَهُهُ بَعْدَ صَلَاتِك إِلَى آخِرِ النَّهَارِ 

وَالْمَعْنَى أَفْرِغْ بَالَك بِعِبَادَتِي فِي أَوَّلِ النَّهَارِ أُفْرِغْ بَالَك فِي آخِرِهِ بِقَضَاءِ حَوَائِجِك اِنْتَهَى ” انتهى من “۔

ترجمہ: “اسکا مطلب یہ ہے کہ میں تمہاری ضروریات، اور حاجات کیلئے کافی ہو جاؤنگا، تمہاری چار رکعتوں سے فراغت کے بعد تمہیں پہنچنے والی ہر ناپسندیدہ چیز سے تمہارا دفاع کرونگا”۔

یعنی مطلب یہ ہے کہ میری عبادت کیلئے دن کے ابتدائی حصہ میں تم وقت نکالو، میں دن کے آخری لمحے میں تمہاری حاجت روائی کر کے ذہنی اطمینان دونگا (تحفۃ الأحوذی)۔

Today we face so much trouble and tensions in life but did we turn towards Allah at this time of zuha when every one goes to work and to earn but if that special time we turn to Allah ,indeed Allah will care us..

دوسری بات:۔ نبوی وصیت

یہ نماز نبی کریم کی وصیت ہیں خاص کر دو صحابیوں کو ۔ ابو درداء اور ابوہریرہ رضی اللہما ۔

ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے دوست صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی کہ میں جب تک زندہ رہونگا ان پر عمل پیرا رہونگا۔ ہر ماہ میں تین روزے، نماز اشراق، اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لوں [مسلم: (1183)]۔

چناچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ۔
مجھے میرے دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی میں انکو مرتے دم تک نہیں چھوڑونگا:۔
مہینے میں ٣ روزے رکھنا۔
چاشت کی دو رکعتیں پڑھنا۔
اور سونے سے قبل وتر ادا کرنا۔ (بخاری ومسلم)۔

وضاحت:۔
اسی لیے جلیل القدر مفسر قرآن امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ابو درداء، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کو وصیت نماز اشراق کی فضیلت، عظیم ثواب، اور تاکیدی عمل ہونے پر دلالت کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس عظیم ثواب کے حصول کیلئے انہوں نے اسے کبھی نہیں چھوڑا (المفهم )۔

تيسرى بات:۔ نبوى طرز عمل

ہم ایمان والوں کی امی جان عائشہ صدیقہ فرماتا ہے۔

( كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى أَرْبَعًا ، وَيَزِيدُ مَا شَاءَ اللَّهُ )

ترجمہ:۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز ضحی 4رکعات پڑھا کرتے تھے ۔اور کبھی مزید پڑھتے جتنی اللہ چاہتا

امام ابن ابن باز رحمہ اللہ “مجموع الفتاوى” میں فرما تے ہیں کہ:۔

“صلاة الضحى سنة مؤكدة فعلها النبي صلى الله عليه وسلم ، وأرشد إليها أصحابه”

ترجمہ: “چاشت کی نماز سنت مؤکدہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی یہ نماز پڑھی ہے، اور صحابہ کرام کو بھی اس کی ترغیب دلائی ” انتہی۔

چوتھی بات :۔ یہ تمام جسم کے اعضاء کی طرف صدقہ

Charity from our joints or organs of body only two rakats of zuha.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں سے ہر آدمی اس حال میں صبح کرتا ہے کے اس کے ذمے اپنے (جسم کے) ہر جوڑ کے بدلے صدقہ ہوتا ہے پس ہر دفعہ “سبحان اللہ” کہنا صدقہ ہے، ہر دفعہ “الحمداللہ ” کہنا صدقہ ہے، ہر بار “لا الہ الا اللہ” کہنا صدقہ ہے، ہر مرتبہ” اللہ اکبر” کہنا صدقہ ہے، “امر بالمعروف” كرنا صدقہ ہے اور” نهى عن المنكر” كرنا صدقہ ہے اور ان سب کی جگہ (صرف) ضحٰی (چاشت) کی ٢ رکعتیں کفایت کرجاتی ہیں” (رواہ مسلم)۔

:ایک دوسرى جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کرکے فرمایا
انسان میں 360 جوڑ ہیں پس اس کو ان تمام جوڑوں کا صدقہ ادا کرنا چاہئے ……………….آخر پر اوپر والی حدیث کی طرح فرمایا سب کی طرف سے دو رکعت ضحی کافی ہوتی ہے۔

It is bcz when we give sadaqa from our body joints by two rakats of zuha or more rakahs Allah saves our joints our organs our body..

پانچویں بات:۔ تعداد رکعات

کم از کم

نماز چاشت کی کم از کم تعداد 2 رکعت ہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کے مطابق۔

زیادہ سے زیادہ
: زیادہ سے زیادہ تعداد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں جیسے

پہلا قول:۔ 8 رکعت
ام ہانی رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ حدیث کی بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ٨ رکعات نماز ضحٰی (چاشت) پڑھی۔

دوسرا قول:۔ اسکا کویی حد نہیں ۔

کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی 4 رکعات پڑھا کرتے تھے اور جس قدر اللہ تعالٰی چاہتا زیادہ بھی پڑھتے ( مسلم)۔۔۔

اس بارے میں جلیل القدر تابعی امام حسن بصری رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا صحابہ کرام چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟؟؟
تو انہوں نے جواب دیا ہاں ان میں سے بعض 2رکعتیں اور بعض 4 رکعتیں اور بعض تو نصب النہار تک پڑھتے تھے (مطلب لا تعداد)۔

So you got Minimum rakats are two 2 Maximum : eight or countless ..

چھٹی بات:۔ اسکا وقت

آبتدائ وقت:۔

” طلوع آفتاب کے بعد جب سورج ایک نیزہ بلند ہوجاہے۔اسی لیے ضحی کہتے ہے۔”

آخری وقت:۔
دوپہر سے پہلے پہل تک ہے۔یعنی نماز ظہر تک ۔

الشرح الممتع ميں امام ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے اس كا اندازہ لگايا ہے كہ:۔

“تقريبا سورج طلوع ہونے كے پندرہ منٹ بعد سے ليكر نماز ظہر سے تقريبا دس منٹ قبل تک ہے”

ساتویں بات:۔ اس نماز کے اور مختلف نام 

وقت کی اولیت ووسطیت اور تاخیر کی وجہ سے اسکے نام مختلف ہیں:۔
صلاة الضحى
صلاة الإشراق
صلاة الاوابين

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:۔

اول وقت ميں چاشت كى نماز ادا كرنا اشراق كى نماز كہلاتا ہے.( فتاوى اابن باز )۔

صلاة الاوابين:۔

اسی نام کی بنیاد پر کہا گیا کہ سورج كى گرمى ہونے كے بعد اس کو پرھنا افضل ہے ۔۔ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:۔
اوابين كى نماز اس وقت ہے جب اونٹ كا بچہ ريت گرم ہونے سے اپنے پاؤں اٹھائے”۔”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 748 )۔

اور علماء كرام نے اس كا اندازہ دن كا چوتھائى حصہ لگايا ہے، يعنى ظہر اور طلوع شمس كے مابين نصف وقت۔

واللہ اعلم

امید ہے کہ یہ سنت ہماری بھی زندگیوں میں آجائے ۔
اللہ ہمیں ہدایت توفیق عطا فرمائے ۔۔

طالب علم : شہزاد احمد پرہ حفظہ اللہ

Share:

Leave a Reply