الحمد للہ وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد
وضوء فی نفسہ ایک مستحب عمل ہے، البتہ نماز کے لئے، مصحف کو ہاتھ میں لینے کے لئے، اور متعدد اہل علم کے پاس طواف کے لیے ( با وضوء ) ہونا واجب ہے۔
مذکورہ تین امور کے لئے وضوء کا واجب ہونے سے متعلق گفتگو، دلائل کا ذکر یہ میرے موضوع سے خارج ہے۔
مجھے صرف یہ بتانا ہے کہ ایک مسلمان کو خصوصاً ایک طالب علم کو ( با وضوء ) رہنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔
سلف صالحین خصوصاً شرعی علم پڑھنے پڑھانے والے اعاظمِ امت اس امر کا غیر معمولی اہتمام کرتے تھے کہ وہ حدیث نبوی پڑھائیں تو با وضوء رہیں، لکھیں تو با وضوء ہوکر، یوں عام طور پر دینی مجلسوں میں شریک سبھی با وضوء رہا کرتے تھے۔ اس سے روحانیت آتی ہے۔
حدیث نبوی ﷺ کی بابت محدثین کا طرزِ تعامل:۔
حافظ أحمد بن علي بن ثابت المعروف ب خطیب بغدادی (ت 463ھ) رحمہ اللہ اپنی کتاب ( الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع ) میں ایک عنوان { مَنْ كَرِهَ التَّحْدِيْثَ عَلَى غَيْرِ طَهَارَةٍ }قائم کئے ہیں۔
( دیکھئیے: الجامع للخطیب: ص 272 )
اس باب کے تحت متعدد اہل علم کے احوال اپنی سند سے ضبطِ تحریر لائے ہیں۔
قتادۃ بن دِعامة السَّدُوسي (ت 117ھ تقریباً) سے متعلق معمر بن راشد الأزدي (ت 154ھ) کہتے ہیں: ۔
قتادۃ رحمہ اللہ حدیثِ رسول ﷺ کو بغیر طہارت کے پڑھنے پڑھانے نا پسند کرتے تھے۔ معمر الازدی کے الفاظ ہیں: ۔
«كَانَ قَتَادَةُ يَكْرَهُ لِلرَّجُلِ أَنْ يُحَدِّثَ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي عَنْ رَسُولِ اللهِ إِلَّا وَهُوَ عَلَى وُضُوءٍ»
حدیث کی معروف کتاب ( الموطأ ) کو امام مالک سے روایت کرنے والے رُواۃ میں ایک نام أحمد بن أبي بكر القاسم (ت 242ھ) بھی ہے جو علمی دنیا میں اپنی کنیت أبو مصعب الزهري سے جانے جاتے ہیں۔
ابو مصعب اپنے استاد امام دار الھجرۃ امام مالك بن أنس (ت 179ھ) کی مجلسِ تحدیث سے متعلق بتاتے ہیں: ۔
«كَانَ مَالِكٌ لَا يُحَدِّثُ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلَّا وَهُوَ عَلَى طَهَارَةٍ، إِجْلَالًا لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ»
امام مالک حدیثِ رسول ﷺ کو حالتِ طہارت ہی میں بیان کیا کرتے تھے، یہ اہتمام حدیثِ رسول کے احترام کی وجہ سے تھا۔
نوٹ:۔
یہ درس وتدریس میں طہارت (وضوء) کا اہتمام ایک دو علماء کا نہیں ہے، یہ مبارک عمل سلف کے معمولات میں رہا ہے۔
ضِرارُ بنُ مُرَّة أبو سِنان (ت 132ھ) الكوفي، صحیح مسلم کے رجال میں سے ہیں۔
حافظ ابن حجر (ت 852ھ) ( تهذيب التهذيب: ٢/٢٢٨ ) میں ضِرار بن مرۃ سے متعلق امام ابو عمر يوسف بن عبد الله ابن عبد البرِّ (ت 463) کے حوالے سے نقل کئے ہیں: أجْمَعُوا على أنَّهُ ثِقَةٌ
بہر حال! مذکورہ معلومات صرف ( ضِرار بن مرۃ ) سے واقف کرانے کے لئے لکھا، اصل اور موضوع سے متعلق بات یہ ہے کہ ضِرار بن مرۃ تابعین کا معمول ان الفاظ میں بتائے ہیں: ۔
«كَانُوا يَكْرَهُونَ أَنْ يُحَدِّثُوا عَلَى غَيْرِ طُهْرٍ»
غور فرمائیں! یہ سلف صالحین کا عام معمول تھا۔
تنبیہ:۔
عام اوقات میں ( با وضوء ) ہونا مستحب ہے، واجب نہیں، اگر کوئی دینی مجلس میں، درس وتدریس میں بغیر طہارت کے بیٹھ جائے تو کیا وہ آثم ہوگا؟؟ قطعاً نہیں ہوگا، البتہ دینی مجالس کا وقار اور اس کی عظمت کا لحاظ رکھا جانا چاہئے، اس کی عظمت میں ( حالتِ طہارت ) میں ہونا بھی ہے۔
خطیب بغدادی کہتے ہیں: ۔
إِنَّمَا هِيَ عَلَى سَبِيلِ التَّوْقِيرِ لِلْحَدِيثِ وَالتَّعْظِيمِ وَالتَّنْزِيهِ لَهُ، وَلَوْ حَدَّثَ مُحَدِّثٌ فِي هَذِهِ الْأَحْوَالِ لَمْ يَكُنْ مَأْثُومًا، وَلَا فَعَلَ أَمْرًا مَحْظُورًا۔
سید الفقہاء ابو عبد اللہ الإمام البخاري:۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی منقبت پر قلم اٹھانے کو اہل علم اپنی سعادت سمجھتے ہیں، یہاں آپ کی قابلِ نمونہ زندگی کا ایک جزء ذکر کرتا ہوں جس کا تعلق ہماری اس تحریر سے ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی (ت 852ھ) رحمہ اللہ نے ( فتح الباری ) پر لکھا گیا علمی مقدمہ ( هدي الساري مقدمة فتح الباري ) میں پہلی فصل صحیح بخاری کی تصنیف پر محرِّکات اور امام بخاری کی حسن نیت کے بیان کے لئے قائم کیا ہے۔
دیکھئیے( هدي الساري: ١/٨ )۔
اس میں یہ بات بھی مذکور ہے کہ امام ابو عبد اللہ محمد بن إسماعيل البخاری (ت 256ھ) کے تلمیذ رشید محمد بن یوسف الفِربري (ت 320ھ) کہتے ہیں، مجھے امام بخاری نے کہا:۔
مَا كتبت فِي كتاب الصَّحِيح حَدِيثا الا اغْتَسَلْتُ قبْلَ ذَلِك وَصلَّيتُ رَكْعَتَيْنِ۔
میں نے اپنی کتاب ( الصحيح ) میں ہر حدیث درج کرنے سے پہلے غسل کرکے دو رکعتیں پڑھی ہیں۔
اسی طرح معروف عالم دین، متعدد مقبول ترین اور خوب خوب پڑھی جانے والی تصانیف کے مصنف ابو محمد حسین بن مسعود الفراء (ت 516ھ) رحمہ اللہ جنہیں علمی دنیا میں ( امام بغوی ) سے نام لیا جاتا ہے۔
چند دن قبل آپ کی سیرت پر ایک محاضرہ بھی دے چکا ہوں۔
آپ سے متعلق ابو العباس أحمد بن محمد ابن خلِّكان (ت 681ھ) اپنی کتاب ( وفيَّات الأعيان: ٢/١١٥ ) میں لکھتے ہیں: ۔
وَكَانَ لَا يُلْقِي الدَّرْسَ إلَّا عَلَى الطَّهَارَةِ۔
بہر کیف! واقعات کی بہتات ہے، سیرت اور تراجم رجال سے متعلق لکھی گئی کتابوں میں بکثرت مل جائیں گے، مقصود حصر اور استیعاب نہیں ہے، تربیتی نقطۂ نظر سے اس امر کو نمایاں کرنا ہی اصل مقصود ہے۔
آخری بات:۔
دینی مدارس میں یہ خوبی آج بھی دیکھی جا سکتی ہے، آپ دیکھیں گے کہ اساتذہ اور طلبہ صبح درسگاہ جانے سے قبل وضوء کا اہتمام کرتے ہیں، اور جو بھی طالب علم ضروریات کے لئے دورانِ درس جاتا ہے وہ بغیر وضوء کئے درس میں بیٹھتا نہیں ہے۔ یہ خوبی ماحول سے وجود پذیر ہوتی ہے۔ دینی درسگاہوں میں یہ مثالی اور قابلِ نمونہ عمل اب بھی موجود ہے۔ ولله الحمد كله۔
محمد معاذ أبو قحافة
١٨ شوال ١٤٤١ھ الخميس