ہم نے اخلاق کا مصدر آخر کہاں کھویا – محترم شہزاد احمد پرہ

بسم الله الرحمٰن الرحيم

انسان اپنے اخلاق سے پہچانا جاتا ہے۔انسان کا اخلاق اپنے رب کے ساتھ۔انسان کا اخلاق اپنے دین کے ساتھ۔ انسان کا اخلاق اپنے اردگرد بسنے والے انسانوں کے ساتھ۔ ۔ اخلاق انسان کا ایسا زیور ہے جس کی قیمت نہیں لگائی جاسکھتی۔ کوی اخلاق دنيا کے کسی بھی دکان میں نہیں بكتتا۔ دولت اخلاق کی کنجی نہیں ہے ۔

آخر اخلاق کا مصدر کیا ہے؟

اگر قرآن کریم کامل شامل کتاب ہے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل شامل شخصیت کی حامل ذات ہے تو یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوسکتا ذہن میں ۔

اخلاقیات کا سبق وحی ربانی میں:۔

أوَّلًا: قرآن پاک میں اللہ کا فرمان:۔

إِنَّ هَذَا الْقُرْآَنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ[ [الإسراء: ]۔[

ترجمہ:۔
 یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو راستہ سب سے زیادہ سیدھا ہے۔

یہ آیت ایک تو قرآن کی مدح پر مشتمل ہے اور دوسری طرح اس میں اخلاقیات کا مضمون بھی ہے۔

چنانچہ مفسر قرآن شیخ عبد الرحمان بن ناصر السعدی رحمہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہے۔

:يخبر تعالى عن شرف القرآن وجلالته وأنه

{ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ }
أي: أعدل وأعلى من العقائد والأعمال والأخلاق، فمن اهتدى بما يدعو إليه القرآن كان أكمل الناس وأقومهم وأهداهم في جميع أموره”۔

ترجمہ:۔
 اللہ تعالی قرآن کریم کے شرف ومنزلت اور جلالت کی خبر دیتے ہوے فرماتا ہے۔ (يهدى التى هى اقوم) قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو راستہ سب سے زیادہ سیدھا ہے، معتدل اور بلند موقف والا ہے عقائد میں،اعمال میں،اور اخلاقیات کے بارے میں ۔لہذا جو کوئ ان امور سے رہنمائی حاصل کرتا ہے جن کی طرف قرآن بلاتا ہے تو وہ تمام امور میں تمام لوگوں سے زیادہ کامل اور پختہ ، سب سے زیادہ درست اور سب سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے۔

 دوسری آیت بھی ملاحظہ کریں:۔

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىا وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [النحل] ۔

ترجمه:۔
اللہ تعالی تم کو امر کرتا ہے انصاف کرنے کا،احسان کرنےکا۔اور رشتہ داروں کو دینے کا اور تم کو منع کرتا ہے بے حیائی،نامعقول اور سرکشی (کرنے)سے تمہیں نصيحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔

مفسر القران امام بغوی رحمہ اللہ نے ” معالم التنزيل ” میں اس کے تحت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے ۔

“هذه الآية أجمع آية فى القران”

ترجمہ:  یہ آیت قرآن کریم کی سب سے زیادہ جامع آیت مبارکہ ہے۔

عبد الرحمان بن ناصر السعدی رحمہ اس کی تفسیر کرتے ہوے وسط میں فرماتے ہے:۔

 فصارت هذه الآية جامعة لجميع المأمورات والمنهيات لم يبق شيء إلا دخل فيها، فهذه قاعدة ترجع إليها سائر الجزئيات۔

ترجمہ:۔
” اس طرح یہ آیت کریمہ تمام مامورات ومنہیات کی جامع ہے کوی چیز ایسی نہیں جو اس میں داخل نہیں ۔ یہ ایک اصول ہے جسکی طرف تمام جزئیات لوٹتی ہیں” ۔

 فائده:۔
اخلاقيات كی تعلیم پر کیا یہ آیت مشتمل نہیں ہے ۔پھر ہم کیوں اپنا راستہ کھو بیٹھے ہیں ۔

ثانيًا:۔ دوسرا مصدر ہے السُّنَّةُ النَّبويَّةُ۔

حقیقی اخلاق وہی ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے سے ہمیں سکھایے۔

اخلاق فاضلہ کے لیے ہی آپ کو اللہ نے بھیجا:۔

نبی ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ :۔

بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق۔
یعنی: میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔

دوسری روایت میں حُسْنَ الْاَخْلَاق کے الفاظ آئے ہیں۔

لوگ احادیث میں سے بہت سارے فقہی یا عقدی مسائل تو بیان کرتے ہیں ۔۔مگر اخلاقی فوائد کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔

حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ:۔

 کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَحْسَنَ النَّاسِ خُلْقًا

رسول اللہ ﷺ تمام انسانوں سے اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے۔ (متفق علیہ)

حضور ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کے بارے میں قرآن مجید کی شہادت یہ ہے کہ:۔

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ 


دین دار اخلاق سے خالی آخر کیوں؟

قارئین کرام:۔
قرانی آیات اور اسی طرح احادیث مبارکہ میں جہاں بہت سے عقدی اور علمی فوائد موجود ہیں۔ وہی ان میں اخلاق عالیہ کے لیے واضح پیغامات و اسباق بھی موجود ہیں ۔ مسلکی تعصب اور جماعتی تعصب علم اخلاقیات کی بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر قرآن و حدیث کو ہم لوگ مسلکی اور جماعتی نقطہ نظر سے دیکھیں گے تو یاد رکھیں یہ اخلاق والی آیات اور ان کا اخلاقی پہلوں ہمیشہ آنکھوں سے اوجھل رہیگا۔ قرآن فہمی اور ذوق حدیث یہ ایک ایسی خوبی ہے جس سے انسان اخلاقیات کی وادیوں میں سیر کرے گا۔ مگر بدقسمتی کہ اس قرآن و حدیث کو ہم لوگ محض چند چیزوں میں ہی محدود کرتے ہیں۔

اللہ توفیق دے۔

گزارش یہ ہے کہ قرآن کی اخلاقیات والی تعلیمات پر غور کیا جاے۔

ابواب الفقه کے بیشتر طالب علم (الا من رحم ربى)اخلاقی اسباق سے محروم کیوں؟

کیا وہ لوگ قرآن و احادیث نہیں پڑھتے ؟

جواب :۔
بعد کے زمانے میں فقہ کو تعصب، تنگ نظری اور مسلکی شدت کا نام دیا گیا ۔اگر چہ زبان قول سے نہیں مگر زبان حال عیاں ہے ۔

آخری گذارش:۔
خاص کر معلمین ،مدرسین، مدربین حضرات کے لیے۔

فقہ کے ابواب میں چاہے عبادات ہو یا معاملات اگر ان آحادیث میں ہم فقہی مسائل بیان کرتے ہوے ان سے ماخوذ سلوکی اور اخلاقی فوائد بھی بیان کرے۔ یہ تربیت کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ اسی پر ہمارے اسلام عمل پیرا تھے۔ ہمارے دین میں تعلیم بطور تربیت کا نام ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم ملزوم ہیں۔

دعا ہے اللہ تعالی ہمیں اخلاقیات کے زیور سے سجادے۔ آمین ۔

طالب علم شهزاد أحمد پرہ حفظہ اللہ

Share:

Leave a Reply