امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔
حدثني شيخنا قال ابتدأني مرض فقال لي الطبيب إن مطالعتك وكلامك في العلم يزيد المرض فقلت له لا أصبر على ذلك وأنا أحاكمك إلى علمك أليست النفس إذا فرحت وسرت قويت الطبيعة فدفعت المرض فقال بلى فقلت له فإن نفسي تسر بالعلم فتقوى به الطبيعة فأجد راحة فقال هذا خارج عن علاجنا۔
ہمارے شیخ (ابن تیمیہ) نے مجھ سے کہا کہ ایک مرتبہ مجھے کوئی بیماری لاحق ہوئی تو ڈاکٹر نے مجھے کہا: آپ کا مطالعہ اور علمی گفتگو کرنا آپ کا مرض کو بڑھا دے گا۔ میں نے کہا: میں اس کے بغیر صبر نہیں کر سکتا۔ آپ مجھے یہ بات بتائیں کہ جب آدمی کو خوشی اور سرور ملتا ہے تو اس کی طبیعت میں نشاط کا پیدا پونا اور مرض کا دور ہونا لازمی امر ہے یا نہیں؟ تو ڈاکٹر کنہے لگا: بے شک ایسا ہی ہے۔ تو میں نے کہا: علم مجھے راحت اور سکون بخشتا ہے ، جس سے میری طبیعت میں نشاط پیدا ہوتا ہے اور میں سکون پاتا ہوں۔ ڈاکٹر کہنے لگا: یہ شخص ہمارے علاج سے باہر ہے۔
[روضة المحبين و نزهة المشتاقين لابن القيم ص 70 | ترجمہ ؛ ابو راکان شاھد]