انکارمنکر اور اس کے شروط و درجات – ابو راکان شاھد الإسلام

انکارمنکر اور اس کے شروط و درجات

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (١)

أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – شَرَعَ لِأُمَّتِهِ إيجَابَ إنْكَارِ الْمُنْكَرِ لِيَحْصُلَ بِإِنْكَارِهِ مِنْ الْمَعْرُوفِ مَا يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَإِذَا كَانَ إنْكَارُ الْمُنْكَرِ يَسْتَلْزِمُ مَا هُوَ أَنْكَرُ مِنْهُ وَأَبْغَضُ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّهُ لَا يَسُوغُ إنْكَارُهُ، وَإِنْ كَانَ اللَّهُ يُبْغِضُهُ وَيَمْقُتُ أَهْلَهُ، وَهَذَا كَالْإِنْكَارِ عَلَى الْمُلُوكِ وَالْوُلَاةِ بِالْخُرُوجِ عَلَيْهِمْ؛ فَإِنَّهُ أَسَاسُ كُلِّ شَرٍّ وَفِتْنَةٍ إلَى آخِرِ الدَّهْرِ

«وَقَدْ اسْتَأْذَنَ الصَّحَابَةُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي قِتَالِ الْأُمَرَاءِ الَّذِينَ يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا، وَقَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ فَقَالَ: لَا، مَا أَقَامُوا الصَّلَاةَ» وَقَالَ: «مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ مَا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَتِهِ» (۲)

وَمَنْ تَأَمَّلَ مَا جَرَى عَلَى الْإِسْلَامِ فِي الْفِتَنِ الْكِبَارِ وَالصِّغَارِ رَآهَا مِنْ إضَاعَةِ هَذَا الْأَصْلِ وَعَدَمِ الصَّبْرِ عَلَى مُنْكَرٍ؛ فَطَلَبَ إزَالَتَهُ فَتَوَلَّدَ مِنْهُ مَا هُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ؛ فَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَرَى بِمَكَّةَ أَكْبَرَ الْمُنْكَرَاتِ وَلَا يَسْتَطِيعُ تَغْيِيرَهَا، بَلْ لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ مَكَّةَ وَصَارَتْ دَارَ إسْلَامٍ عَزَمَ عَلَى تَغْيِيرِ الْبَيْتِ وَرَدِّهِ عَلَى قَوَاعِدِ إبْرَاهِيمَ، وَمَنَعَهُ مِنْ ذَلِكَ – مَعَ قُدْرَتِهِ عَلَيْهِ – خَشْيَةُ وُقُوعِ مَا هُوَ أَعْظَمُ مِنْهُ مِنْ عَدَمِ احْتِمَالِ قُرَيْشٍ لِذَلِكَ لِقُرْبِ عَهْدِهِمْ بِالْإِسْلَامِ وَكَوْنِهِمْ حَدِيثِي عَهْدٍ بِكُفْرٍ، وَلِهَذَا لَمْ يَأْذَنْ فِي الْإِنْكَارِ عَلَى الْأُمَرَاءِ بِالْيَدِ؛ لِمَا يَتَرَتَّبُ عَلَيْهِ مِنْ وُقُوعِ مَا هُوَ أَعْظَمُ مِنْهُ كَمَا وُجِدَ سَوَاءٌ۔

فَإِنْكَارُ الْمُنْكَرِ أَرْبَعُ دَرَجَاتٍ؛ الْأُولَى: أَنْ يَزُولَ وَيَخْلُفَهُ ضِدُّهُ، الثَّانِيَةُ: أَنْ يَقِلَّ وَإِنْ لَمْ يَزُلْ بِجُمْلَتِهِ، الثَّالِثَةُ: أَنْ يَخْلُفَهُ مَا هُوَ مِثْلُهُ، الرَّابِعَةُ: أَنْ يَخْلُفَهُ مَا هُوَ شَرٌّ مِنْهُ؛ فَالدَّرَجَتَانِ الْأُولَيَانِ مَشْرُوعَتَانِ، وَالثَّالِثَةُ مَوْضِعُ اجْتِهَادٍ، وَالرَّابِعَةُ مُحَرَّمَةٌ؛ فَإِذَا رَأَيْت أَهْلَ الْفُجُورِ وَالْفُسُوقِ يَلْعَبُونَ بِالشِّطْرَنْجِ كَانَ إنْكَارُك عَلَيْهِمْ مِنْ عَدَمِ الْفِقْهِ وَالْبَصِيرَةِ إلَّا إذَا نَقَلْتَهُمْ مِنْهُ إلَى مَا هُوَ أَحَبُّ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ كَرَمْيِ النُّشَّاب وَسِبَاقِ الْخَيْلِ وَنَحْوِ ذَلِكَ، وَإِذَا رَأَيْت الْفُسَّاقَ قَدْ اجْتَمَعُوا عَلَى لَهْوٍ وَلَعِبٍ أَوْ سَمَاعِ مُكَاء وَتَصْدِيَةٍ فَإِنْ نَقَلْتَهُمْ عَنْهُ إلَى طَاعَةِ اللَّهِ فَهُوَ الْمُرَادُ، وَإِلَّا كَانَ تَرْكُهُمْ عَلَى ذَلِكَ خَيْرًا مِنْ أَنْ تُفْرِغَهُمْ لِمَا هُوَ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ فَكَانَ مَا هُمْ فِيهِ شَاغِلًا لَهُمْ عَنْ ذَلِكَ، وَكَمَا إذَا كَانَ الرَّجُلُ مُشْتَغِلًا بِكُتُبِ الْمُجُونِ وَنَحْوِهَا وَخِفْت مِنْ نَقْلِهِ عَنْهَا انْتِقَالَهُ إلَى كُتُبِ الْبِدَعِ وَالضَّلَالِ وَالسِّحْرِ فَدَعْهُ وَكُتُبَهُ الْأُولَى، وَهَذَا بَابٌ وَاسِعٌ؛ وَسَمِعْت شَيْخَ الْإِسْلَامِ ابْنَ تَيْمِيَّةَ قَدَّسَ اللَّهُ رُوحَهُ وَنَوَّرَ ضَرِيحَهُ يَقُولُ: مَرَرْت أَنَا وَبَعْضُ أَصْحَابِي فِي زَمَنِ التَّتَارِ بِقَوْمٍ مِنْهُمْ يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ، فَأَنْكَرَ عَلَيْهِمْ مَنْ كَانَ مَعِي، فَأَنْكَرْت عَلَيْهِ، وَقُلْت لَهُ: إنَّمَا حَرَّمَ اللَّهُ الْخَمْرَ لِأَنَّهَا تَصُدُّ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنْ الصَّلَاةِ، وَهَؤُلَاءِ يَصُدُّهُمْ الْخَمْرُ عَنْ قَتْلِ النُّفُوسِ وَسَبْيِ الذُّرِّيَّةِ وَأَخْذِ الْأَمْوَالِ فَدَعْهُمْ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار منکر کو امت پر اس لئے واجب قرار دیا ہے کہ اس کے ذریعہ معروف ، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ ہے حاصل ہوسکے۔ لیکن اگر کسی منکر پر نکیر کی وجہ سے کوئی ایسا منکر لازم آجائے جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک اس سے زیادہ مبغوض ہو اور ناپسندیدہ ہو، تو انکار منکر کی اجازت نہیں ہے، گر چہ اللہ اس کو اور اس کے کرنے والے لوگوں ناپسند کرتا ہے ، اور یہ اس انکار کی طرح ہے جو بادشاہوں اور امراء پر خروج کر کے ہوتا ہے، جو کہ قیامت تک ہر ایک شر و فتنہ کی بنیاد ہے ، اور حقیقت میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان امراء کے ساتھ قتال کرنے کے بارے میں پوچہا تھا جو نماز کو اپنے وقتوں سے مؤخر کرتے ہیں، انہوں نے پوچہا: کیا ہم ان سے نہیں لڑینگیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، جبتکہ وہ لوگ نماز قائم کریں اور آپ نے یہ بھی فرمایا: جو شخص اپنے سردار میں کچھ ایسا دیکھے جس سے وہ ناپسند کرتا ہو تو اس کو صبر کرنا چاہیے اور اس کو بیعت نہیں توڑنی چاہیے۔

جس انسان نے اسلام پر بیتے بڑے اور چہوٹے فتنوں کے حوالے سے غورو فکر کیا ، اس نے ادراک کر لیا کہ یہ اس اصل (عدم خروج) کے فقدان اور منکر پر بے صبری کے نتیجے میں ہوا ، اس کے ازالے کی طلب نے اس سے بڑھ کر منکر وجود میں لایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بڑے منکرات کا مشاہدہ کرتے تھے لیکن ان کو مٹانے کی قوت آپ کے پاس نہیں تھی، بلکہ جب اللہ نے فتح مکہ سے نواز دیا اور وہ دار اسلام بن گیا پھر آپ نے بیت اللہ کی تغییر کی اور اس کو قواعد ابراہیم پر لوٹا دیا، اس چیز کا آپ نے قدرت کے باوجود منع کر دیا تھا اس خوف کی پاداش میں کہ کہیں اس سے بڑا فتنہ نہ اٹھے قریش کے عدم تحمل کی صورت میں جو کہ زمانے کے اعتبار سے اسلام کے قریب تھے اور ان کا عھد کفریہ تھا ، اسی وجہ سے آپ نے امراء کے خلاف ہاتھ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی، جس کی وجہ سے اس سے کہیں گنہ بڑا منکر وقوع پزیر ہوتا جیسا کہ دیکھا گیا ہے۔

انکار منکر کے چار درجے ہیں:۔

پہلا درجہ یہ ہے کہ منکر زائل ہوجائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہو جائے۔

دوسرا درجہ یہ ہے کہ منکر کم ہوجائے خواہ وہ پوری طرح زائل نہ ہو۔

تیسرا درجہ یہ ہے کہ وہ منکر تو مٹ جائے جس پر نکیر کی جا رہی ہے لیکن اس کی جگہ اسی حیثیت کا ایک دوسرا منکر آجائے۔

چوتھا درجہ یہ ہے کہ منکر کے مٹنے کے بعد اس سے بدتر منکر پیدا ہوجائے۔

پہلے دونوں درجے مشروع ہیں۔ تیسرے درجے کے سلسلے میں اجتہاد کرنا پوگا اور چوتھا درجہ حرام ہے۔

اور جب تم فساق و فجار کو دیکھو جو شطرنج کھیل رہے ہوں ، تو محض اس سے ان کو روک دینا عقل مندی اور سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہوگی۔ ہاں اگر آپ ان کو اس کام سے ہٹا کر اس سے بہتر کسی ایسے کام میں لگا سکیں جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسندیدہ ہے ، جیسے تیر اندازی اور گھڑ دوڑ وغیرہ، تو ان پر نکیر کرنا صحیح ہوگا۔ اور جب تم اہل فساق کو لہو لعب اور گانا بجانے اور سننے کے اجتماع میں دیکھ لو تو اگر آپ ان کو اللہ کی اطاعت کی طرف لے گئے جو کہ اصل مراد ہے، وگرنہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دو کیونکہ اگر وہ خالی ہوں گے تو اس وقت جن منکرات کا ارتکاب کر رہے ہیں ان سے بھی بڑے منکرات کا ارتکاب کریں گے اور موجودہ مصروفیت ان کو اس سے روکے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص فحش اور عریاں کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اور آپ کو ڈر ہے کہ اگر اس کو اس سے منع کیا جائے تو وہ ایسی کتابیں دیکھنے لگے جن میں بدعت، ضلالت اور جادو بھری ہوئی ہے تو اس پر نکیر نہ کیجئے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیجئے کیوں کہ گندی کتابوں سے اس کے صرف اخلاق خراب ہو رہے ہیں لیکن جن کتابوں میں بدعت اور ضلالت ہے ان سے اس کے ایمان ہی کے بگڑنے کا اندیشہ ہے۔

شیخ الإسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ تاتاریوں کے زمانہ میں میرا اور میرے بعض ساتھیوں کا ایک ایسی جگہ سے گزر ہوا جہاں چند تاتاری شراب پی رہے تھے ، یہ دیکھ کر میرے ساتھیوں نے ان پر نکیر کی ، تو میں ان کو منع کیا اور کہا کہ اللہ نے شراب کو اس لئے حرام قرار دیا ہے کہ وہ اس کے ذکر اور نماز سے روکتی ہے لیکن ان لوگوں کے حق میں شراب بہت اچھا کام انجام دے رہی ہے۔ کیونکہ وہ ان لوگوں کو قتل کرنے ، بچوں کو قید کرنے اور مال لوٹنے سے روکتی ہے اس لئے ان کو ان

کے حال پر چھوڑ دو اور شراب پینے دو۔

إعلام الموقعين عن رب العالمين لابن القيم رحمه الله | ج 3 ص13 (١)

(٢) :صحيح البخاري عن ابن عباس (7143) , مسلم كتاب الإمارة (1849)

Share:

Leave a Reply