مشاجرات صحابہ کے بارے میں دو باتیں – محترم شہزاد احمد پرہ

 السلام عليكم ورحمة اللة وبركاته

 بسم الله الرحمان الرحيم 

 مشاجرات صحابہ کرام ایک ایسا مسلہ ہے جس کی آڑ میں اکثر نادان دھوکا کھاتے ہیں ۔ جب بھی ان کے سامنے صحابہ کے اپسی اختلاف والی باتیں یا لڑاییاں پیس کی جاتی ہیں۔

 کچھ لوگ فورا اسکو حقوباطل کا پیمانہ بنانے لگتے ہیں۔

کچھ لوگ دلوں میں صحابہ کی نفرت کو پالنے لگتے ہیں۔

 کچھ لوگ زبان درازی پر اترتے ہیں۔

کچھ لوگ دین میں ہی مشکوک ہوتے ہیں۔

     اسی لیے یہ موضوع مشاجرات صحابہ کرام اہل بدعت اور اہل سنت کے درمیان ایک میزان ہیں ۔۔اس موضوع پر مختلف اعتارات سے بات کی جاتی ہیں۔

 دو نقطے یہاں پر ہم بیان کرتے ہیں:۔

  اول: مشاجرات صحابہ پر روایات۔

دوسرا: کچھ اسلام امت کے اقوال۔

           پہلا نکتہ:۔

  مشاجرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم پر پیش کی جانے والے روایات اور واقعات اس طرح کے اقسام بن دکھتے ہیں:۔

وہ روایات جو بالکل باطل و موضوع ہے تاریخی کتب میں۔

 وہ روایات جو صریح نہیں ہے مگر ان کو صریح کسی فرد پر پیش کیا جاتا ہے۔ 

وہ روایات جو صحیح تو ہے مگر ان کی باطل تاویلات کی گی۔ 

وہ روایات جو اگر صحیح ہے مگر ان کے مقابلے میں دوسری صحیح روایات کو ترک کیا جاتا ہے۔ جو ایک حدیث دوسرے حدیث کی تفسیر کرتی ہیں۔

  وہ روایات جو اگر چہ مقبول ہے مگر ان کے مقابل دیگر روایات جو صحت کے درجہ میں بہت اعلی ہیں۔

 نوٹ: مسلہ یہ ہے کہ ان روایات کو قلمبند کرنے والے مولفین کی کتب کو پڑھنا ایک عام آدمی کا کام نہیں ہے۔ یہ اہل علم کا کام ہے۔ تب جاکر انسان گمراہی سے بچ سکھتا ہیں۔ آج جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے بارے میں بد گمان آڑ بدزبان ہیں۔ وہ اکثر وہی لوگ ہیں۔ جو خود ہی خود کو علم کی دنیا میں دھکیل دیتے ہیں۔ پھر کتابوں سے اخذ کرکے ویڈیوز بناتے ہیں۔ جیسے مرزا علی وغیرہ۔ یہی روایات سب کی سب آپ کو کتاب خلافت وملوکیت از سید مودودی میں آپ کو ملےگا۔

    بحرحال اہل علم بخوبی واقف ہیں۔ طالب علم اور عامی پر یہ لازم ہیں کہ اہل علم سے جڑے رہے۔

                دوسرا نکتہ:۔

اس امت کے محدثین اور ائمہ کرام نے جب دیکھا کہ لوگوں کو گمراہ اسی دروازے سے کیا جاتا ہیں کہ موضوع بنایا جاتا ہے مشاجرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم تو انہوں نے اس دروازے کو بند کیا۔

 اور پھر مشاجرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم پر خاموشی کرنا اھل سنت کی علامت بن گی۔

   نیچے چند حوالے ائمہ کرام کے نقل کے گئے ہیں:۔ 

  عمربن عبدالعزیز کا قول:۔

جب عمربن عبد العزیز رحمہ اللہ سے صحابہ کرام کے درمیان وقوع پذیر ہوئے قتل وقتال کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا:۔

 تِلْكَ دِمَاءٌ طَهَّرَ الله يَدِي مِنْهَا؛ أفَلا أُطَهِّرُ مِنْهَا لِسَانِي؟ مَثَلُ أصْحَابِ رَسُولِ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – مَثَلُ العُيُوْنِ، ودَوَاءُ العُيُوْنِ تَرْكُ مَسِّهَا۔ (تسدید الإصابۃ فیما شجر بین الصحابۃ، تالیف: أبو صفوان غامدی ازدی، ص:۱۶۳)۔

 یعنی: “اللہ تعالی نے ان کے خون سے میرے ہاتھ کو پاک رکھا ہے ،تو کیا میں ان کے بارے میں اپنی زبان کو پاک نہیں رکھ سکتا ؟ اصحاب رسول ﷺ کی مثال آشوب چشم کی ہے جس کی دواء اسے نہ چھونا ہے”۔

امام محمد بن ادریس شافعی کا فرمان:۔

امام شافعی ر حمہ اللہ رقمطراز ہیں:۔

تِلْكَ دِمَاءٌ طَهَّرَ اللهُ أَيْدِيَنَا مِنْهَا فَلِمَ نُلَوِّثُ أَلْسِنَتَنَا۔ (شرح الفقہ الأکبر،ص:۷۱)۔

یعنی:۔

 اللہ تعالی نے ان کے خون سے ہمارے ہاتھوں کو پاک کیا ہے تو ہم اپنی زبانوں کو ان کی شان میں گستاخی کرکے کیوں گندہ کریں۔

 امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول:۔

جب امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:۔

مَا أَقُولُ فِيهَا إِلَّا الْحُسْنَى رَحِمَهُمُ اللهُ أَجْمَعِيْنَ۔ (مناقب الإمام أحمد ،تالیف: ابن الجوزی،ص:۱۴۶)۔

یعنی: میں ان کے بارے میں اچھی بات ہی کہتا ہوں، اللہ سب پر رحم کرے۔

 امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول:۔

وہ فرماتے ہیں:۔ 

اَلسَّيْفُ الَّذِيْ وَقَعَ بَيْنَ الصَّحَابَةِ فِتْنَةٌ وَلَا أَقُولُ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ مَفْتُونٌ۔ (سیر أعلام النبلاء ۸،تالیف: الذہبی/۴۰۸)۔

یعنی:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین چلنے والی تلوار فتنہ تھی ، میں ان میں کسی کو یہ نہیں کہوں گا وہ فتنہ زدہ ہیں۔

نیز فرماتے ہیں:۔

 مَنِ اسْتَخَفَّ بالعُلَمَاءِ ذَهَبَتْ آخِرَتُهُ۔ (حوالہ سابق)۔

یعنی:جس نے علما کی اہانت کی اس کی آخرت خطرے میں ہے۔

 قارئین کرام اس طرح بہت سے اقوال اور بھی ہیں۔ آپ کتب میں مفصل دیکھ سكھتے ہیں۔

 مگر یہاں میں نے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے آپ کو دو باتیں یاد دلائی۔

 نمبر ایک:۔

روایات مختلف قسم کی ہیں تو جلدی فیصلہ نہ کرے ورنہ گمراہی کا خطرہ ہے جیسے کہ بہت سے لوگ گمراہ ہوگیے۔کتاب “خلافت وملوکیت” اسی ذمن کی کتاب ہے۔

  نمبر دو:۔

  اسلاف امت کا علمی اور عملی میدان کی کامیابی اور انکے اقوال اس موضوع پر۔

    نسأل الله السلامة والعافية في الدنيا والآخرة ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم 

                        الأخ: شہزاد احمد پرہ حفظہ اللہ

Share:

Leave a Reply