نماز میں صفوں کے درمیاں فاصلہ رکھنے کا مسلہ ۔ محترم شہزاد احمد پرہ

نماز میں صفوں کے درمیاں فاصلہ رکھنے کا مسلہ

اس مسلے میں یہاں کے سلفی علماء کرام کے دو نظریے ہیں :۔

ایک جواز کا دوسرا عدم جواز کا

پہلا موقف: یہاں کے اکثر بیشتر علماء کرام جواز کے قائل ہیں۔ جن میں مفتی اعظم جمعیت اہلحدیث مفتی محمد یعقوب بابا المدنی صاحب ، الشیخ الدکتور الکندی ۔،الشیخ ظہور احمد شاہ المدنی ،الشیخ مبشر احسن المدنی ، وغیرہ اور بہت سارے علماء کرام شامل ہے اللہ ان سب کی حفاظت فرماے۔

دوسرا موقف: عدم جواز کا موقف اس پر الشیخ الدکتور
ظہور احمد ملک المدنی حفظہ اللہ اور باقی اور بھی چند علماء کرام ہیں۔ اللہ سب کی حفاظت فرماے۔

دونوں طرح کے علماء قابل عزت ہے

الراجح:۔

ہم اگر غور کرتے ہہیں تو پہلی جماعت کے علماء کرام کی رائے (فاصلہ والی راے ) ہی درست اور بہتر نظر آرہی ہیں۔
قران حدیث اور مصالح شرعیہ کو مد نظر رکھتے ہوے۔

کیونکہ اگر مساجد میں نہیں جاینگے ۔جیسا کہ بیمار کے لیے یہ جائز ہے اس عزر کی بنا پر تو یاد رہے۔

یہ ایک دو دن کی بات نہیں ہے بلکہ مہینوں کی بات ہے ۔ جس میں زیادہ گہراہی سے سوچنا ہوگا اہل علم کو ۔کہ کیا مہینوں کے لیے ہم گھر میں رہنے کا حکم دینگے ۔ یا التباعد کا ؟

دوسری بات: جو علماء فاصلہ رکھنے کی بات کرتے ہیں وہ بھی یہ پہلے ہی کہتے ہیں کہ جس خاص شخص کو یہ بیماری ہو یا اندیشہ ہو وہ گھر مین ہی رہے ۔۔
مگر باقی تمام لوگ جن کو بیماری نہیں ہیں۔ ان کو صرف یہ احتمال ہے کہ کہی یہ بیماری مسجد مین پھل نہ جاے ۔۔ تو گھر میں پڑھنے کا جواز بھی محل نظر ہے اس اعتبار سے ،کیونکہ (اذا وجد الاحتمال بطل استدلال۔) ظاہر ہوا کہ مریض کی بات الگ ہے اور احتمال مرض میں اسباب وقایتہ کی بات الگ۔

تيسرى بات اگر دین میں ضرورت کے مطابق مسجد میں جماعت کے لیے نہ جانے کی رخصت ہے ۔جو كہ حکما فرض ہے ۔جب وہ ساقط ہوسکھتا ہے تو صف مین جڑنا بھی فرض اگر مان لیا جاے وہ ساقط کیوں نہیں ہوسکھتا کیونکہ قاعدہ عام ہے

(سقوط الواجب عند الضرورۃ)

اسی طرح جماعت ترک کرنا بھی ترک واجب ہے۔
التباعد فاصلہ بھی ترک واجب ۔

مگر ترک جماعت والے فتوے مین بہت سارے مفاسد جنم لے سکھتے ہیں جو کہ واضح اور نمایاں ہیں۔۔ مگر التباعد کے فتوے سے وہ مفاسد نہیں ہونگے ۔ تو شرعاً (عند تزاحم المفسدتین )والا قاعدہ بھی ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہے۔

جمور علماء عام حالات میں بھی اس کو صف ہی مانتے ہی اگر کچھ فاصلہ بھی ہو ۔

تو ان کے نزدیک پھر بھی نماز جماعت ادا ہوتی ہے۔اب اگر یہ ضروری بھی مانا جاے۔ تب بھی (الضرورة تقدر بقدرها ) کے پیش نظر التباعد والی راے ہی درست معلوم ہوتی ہے۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ پہلے ازمان میں یہ مسلہ ںہیں ہوا تھا ۔ یہ فقہ النوازل کے باب سے ہے۔فرض کرے اگر پہلے یہ ہوتا تو ضرور تخیف کے لیے اس نوعیت کا کوی حکم دیا جاتا ۔
(الضرورات تبيح المحظورات) یہ عام قاعدہ ہے ۔
نماز پر بھی نماز کے اجزاء پر بھی ۔۔

پھر التباعد کے نتائج بھی اچھے رہے ۔ جن ممالک نے اس کو اختیار کیا خاص کر مملکت سعودی عرب میں یہ بھی قابل غور ہے ۔

نوٹ:- ہم ان کی محض نقل نہیں کرتے بلکہ ان کے فتاوی میں چھپے شرعی علم کی پیروی کرتے ہیں۔

یاد رہے جمور علماء صف کے جوڑنے کو مستحب سمجھتے ہیں ۔ أئمہ اربعہ بھی اس کو مستحب سمجھتے ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ جب واجب ساقط ہو سکھتا ہے ۔ مستحب کیوں نہیں وہ بھی حاجت یا ضرورت کے وقت ؟
اس کے علاوہ بقدر ضرورت اسلام حرج کو دور کرتا ہے ۔

یہآن سب اطباء کی آراء اس پر متفق سی نظر آرہی ہے کہ فاصلہ قائم رکھنا ایک بہترین بچاؤ ہے تو مصلحت اسی میں ہے۔ اہل فن سے پوچھا جاے ۔اور شرعا ‘اسباب الوقایہ’ اختیار کرنا مطلوب ہے۔
اگر مساجد مین فاصلہ نہیں رکھی جاتی بہت سے لوگ جو بیمار ہے ہی نہیں وہ مساجد نہیں آتے ۔۔صرف از عذر کی بنا پر کہ کہی وہاں بیماری لگ نہ جاے یہ مہینوں سے چلا آرہا ہے۔ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
ان کو ترک جماعت کا حکم دے ۔ یا ترک صف (التراص فى الصف)
زيادہ مناسب کیا ہے مستحب یا واجب؟؟

نماز کا مطلوب ہے الخشوع مگر عدم التباعد آج کے وقت میں نمازیوں کے اندر قلق اور بے سکونی کا سبب بن چکا ہے۔ کیا عدم خشوع والا فتوی دیا جاے یا خشوع والا ؟ شرعا اسباب خشوع اختیار کرنے کی مختلف مثالین ہیں۔ اور خلل خشوع والے امور ہٹانے کی مثالیں بھی موجود ہے۔ ان پر بھی قیاس ہو سکھتا ہے۔

اسی طرح دنیا بھر کے بہت سے علماء خاص کر مملکت سعودی عرب کے کبار علماء نے بھی یہ فتوی دیا التباعد يعنی صفوں میں فاصلہ رکھنے کا۔ اور آج بھی اسپر عمل ہورہا ہے۔ تو مسلہ عالمی سطح کا ہے جب وہاں اسی مرض پر یہ فتوی معتبر ہے یہاں پر معتبر کیوں نہیں۔

اسی طرح حکومت کی جانب سے بھی یہی ہدایات ملتی رہتی ہے۔ تو اس کے خلاف ورزی پر سختی بھی ہوتی ہے اور ہو بھی سکھتی ہے تو مصلحت کس میں ہے؟

بحر حال حقیقی علم تو اللہ ہی رکھتا ہے مگر یہ فاصلہ یا فاصلہ صفوں میں رکھنے والی رائے ہہی اقرب الی الصواب نطر آرہی ہے۔

باقی یہ فتوی نویسی کبار مجتھدین اور علماء کرام کا کام ہے ۔ ان سے ہی فتاوای صادر ہوسکھتے ہیں۔
ان شاء اللہ امید ہے کہ اس میں ضرور جمعیت اہلحدیث جموں و کشمیر سے علماء کرام کا اتفاقی فتوی صادر ہوگا۔ یہ امید ہے اتفاقی ہونا ضروری نہیں ہے عمل کے لیے۔

نوت:۔
یہ چند سطور تھی جو ہم نے رقمطراز کی یہ کوی فتوی نہں ہے صرف ایک راے ہے۔

طالب علم: شہزاد احمد پرہ

واللہ اعلم بالصواب ۔

Share:

Leave a Reply