صحیح بخاری کی حدیث کا دفاع اور مودودی کے اعتراضات پر کاری ضرب
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ لأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَى سَبْعِينَ امْرَأَةً تَحْمِلُ كُلُّ امْرَأَةٍ فَارِسًا يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ. فَلَمْ يَقُلْ، وَلَمْ تَحْمِلْ شَيْئًا إِلاَّ وَاحِدًا سَاقِطًا إِحْدَى شِقَّيْهِ ”. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ” لَوْ قَالَهَا لَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ”. قَالَ شُعَيْبٌ وَابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ” تِسْعِينَ ”. وَهْوَ أَصَحُّ.(۱)
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا ، کہا ہم سے مغیرہ بن عبدالرحمان نے بیان کیا ، ان سے ابوالزناد نے ، ان سے اعرج نے ، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، سلیمان بن داؤد علیہما السّلام نے کہا کہ آج رات میں اپنی ستر بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک شہسوار جنے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا ۔ ان کے ساتھی نے کہا انشاءاللہ ، لیکن انہوں نے نہیں کہا ۔ چنانچہ کسی بیوی کے یہاں بھی بچہ پیدا نہیں ہوا ، صرف ایک کے یہاں ہوا اور اس کی بھی ایک جانب بیکار تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سلیمان علیہ السلام انشاءاللہ کہہ لیتے ( تو سب کے یہاں بچے پیدا ہوتے ) اور اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ۔ شعیب اور ابن ابی الزناد نے بجائے ستر کے ) نوے کہا ہے اور یہی بیان زیادہ صحیح ہے ۔
مفکر سیاست منکر حدیث مودودی اس حدیث کی صحت تسلیم کرنے بعد اس کا انکار کرتے ہوئے ایسی آوارہ لب کشائی کرتا ہے جسے اللہ کی پناہ ہی طلب کی جاسکتی ہے۔
لکھتا ہے: تیسرا گروہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک روز قسم کھائی کہ آج رات میں اپنی ستّر بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر ایک سے ایک مجاہد فی سبیل اللہ پیدا ہو گا، مگر یہ بات کہتے ہوئے انہوں نے اِنشاء اللہ نہ کہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئیں اور ان سے بھی ایک ادھورا بچہ پیدا ہوا جسے دائی نے لا کر حضرت سلیمانؑ کی کرسی پر ڈال دیا۔ یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کی ہے اور سے بخاری و مسلم اور دوسرے محدثین نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے ۔ خود بخاری میں مختلف مقامات پر یہ روایت جن طریقوں سے نقل کی گئی ہے ان میں سے کسی میں بیویوں کی تعداد 60 بیان کی گئی ہے ، کسی میں 70، کسی میں 90، کسی میں 99 ، اور کسی میں 100۔ جہاں تک اسناد کا تعلق ہے ، ان میں سے اکثر روایات کی سند قوی ہے ، اور با عتبارِ روایت اسکی صحت میں کلام نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن حدیث کا مضمون صریح عقل کے خلاف ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح ہر گز نہ فرمائی ہو گی جس طرح وہ نقل ہوئی ہے ۔
بلکہ آپ نے غالباً یہود کی یاوہ گوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے کسی موقع پر اسے بطور مثال بیان فرمایا ہو گا، اور سامع کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ اس بات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بطور واقعہ بیان فرما رہے ہیں ۔
ایسی روایات کو محض صحت سند کے زور پر لوگوں کے حلق سے اُتروانے کی کوشش کرنا دین کو مضحکہ بنانا ہے۔
ہر شخص خود حساب لگا کر دیکھ سکتا ہے کہ جاڑے کی طویل ترین رات میں بھی عشا اور فجر کے درمیان دس گیارہ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ اگر بیویوں کی کم سے کم تعداد 60 ہی مان لی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس رات بغیر دم لیے فی گھنٹہ 6 بیویوں کے حساب سے مسلسل دس گھنٹے یا گیارہ گھنٹے مباشرت کرتے چلے گئے ۔
کیا یہ عملاً ممکن بھی ہے؟ اور کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات واقعے کے طور پر بیان کی ہو گی؟ پھر حدیث میں یہ بات کہیں نہیں بیان کی گئی ہے کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان کی کرسی پر جس جسد کے ڈالے جانے کا ذکر آیا ہے اس سے مراد یہی ادھورا بچہ ہے ۔ اس لیے یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ حضورؐ نے یہ واقعہ اس آیت کی تفسیر کے طور پر بیان فرمایا تھا۔ علاوہ بریں اس بچے کی پیدائش پر حضرت سلیمانؑ کا استغفار کرنا تو سمجھ میں آتا ہے ، مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انہوں نے استغفار کے ساتھ یہ دعا کیوں مانگی کہ ’’ مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزا وار نہ ہو۔‘‘ (۲)
دوستو! یہ تھی مودودی کی بکواس ، اب آئیے شارح بخاری امام ابن ججر اور شارح مسلم امام النووی رحمھما اللہ کے کلام کو بھی دیکھ لیجئے:۔
وَفِيهِ مَا خُصَّ بِهِ الْأَنْبِيَاءُ مِنَ الْقُوَّةِ عَلَى الْجِمَاعِ الدَّالِّ ذَلِكَ عَلَى صِحَّةِ الْبِنْيَةِ وَقُوَّةِ الْفُحُولِيَّةِ وَكَمَالِ الرُّجُولِيَّةِ مَعَ مَا هُمْ فِيهِ مِنَ الِاشْتِغَالِ بِالْعِبَادَةِ وَالْعُلُومِ وَقَدْ وَقَعَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ أَبْلَغُ الْمُعْجِزَةِ لِأَنَّهُ مَعَ اشْتِغَالِهِ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ وَعُلُومِهِ وَمُعَالَجَةِ الْخَلْقِ كَانَ مُتَقَلِّلًا مِنَ الْمَآكِلِ وَالْمَشَارِبِ الْمُقْتَضِيَةِ لِضَعْفِ الْبَدَنِ عَلَى كَثْرَةِ الْجِمَاعِ وَمَعَ ذَلِكَ فَكَانَ يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ فِي لَيْلَة بِغسْل وَاحِد وَهن إحد عَشْرَةَ امْرَأَةً.(٣)
اس حدیث میں انبیاء کی مخصوص قوت جماع ، جسمانی طاقت اور مکمل مردانگی کی دلالت واضح ہے باوجود اس کے کہ وہ سب عبادت اور علوم نافعہ میں مشغول ہوتے ہیں ، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنے رب کی عبادت ، علوم نافعہ اور خدمت خلق کے باوجود بڑا معجزہ رونما ہوا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانا پینا کم کھاتے تھے جو کہ بدن کی کمزوری کا متقاضی تھا، لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی رات میں غسل واحد سے اپنی ساری ازواج کے پاس جاتے تاور خدمت خلق کے باوجود بڑا معجزہ رونما ہوا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانا پینا کم کھاتے تھے جو کہ بدن کی کمزوری کا متقاضی تھا، لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی رات میں غسل واحد سے اپنی ساری ازواج کے پاس جاتے تھے اور انکی تعداد گیارہ تھیں۔
قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (كَانَ لِسُلَيْمَانَ سِتُّونَ امْرَأَةً) وَفِي رِوَايَةٍ سَبْعُونَ وَفِي رِوَايَةٍ تِسْعُونَ وَفِي غَيْرِ صَحِيحِ مُسْلِمٍ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ وَفِي رِوَايَةٍ مِائَةٌ هَذَا كُلُّهُ لَيْسَ بِمُتَعَارِضٍ لِأَنَّهُ لَيْسَ فِي ذِكْرِ الْقَلِيلِ نَفْيُ الْكَثِيرِ وَقَدْ سَبَقَ بَيَانُ هَذَا مَرَّاتٍ وَهُوَ مِنْ مَفْهُومِ الْعَدَدِ وَلَا يُعْمَلُ بِهِ عِنْدَ جَمَاهِيرِ الْأُصُولِيِّينَ وَفِي هَذَا بَيَانُ مَا خُصَّ بِهِ الْأَنْبِيَاءُ صَلَوَاتُ اللَّهِ تَعَالَى وَسَلَامُهُ عَلَيْهِمْ مِنَ الْقُوَّةِ عَلَى إِطَاقَةِ هَذَا فِي لَيْلَةٍ واحدة وكان نبيا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطُوفُ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ امْرَأَةً لَهُ فِي السَّاعَةِ الْوَاحِدَةِ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ وَهَذَا كُلُّهُ مِنْ زِيَادَةِ الْقُوَّةِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ!(٤)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول: سلیمان علیہ السلام کی ساٹھ بیویاں تھیں اور دوسری روایت میں ستھر اور ایک روایت میں ۹۰ اور مسلم کے علاوہ ننانوے یا سو یہ ساری روایتیں متعارض نہیں ہیں کیونکہ قلیل کے ذکر سے کثیر کی نفی لازم نہیں آتی اور اسکا تزکرہ بہت مرتبہ گزر چکا ہے جو کہ مفھوم عدد سے تعلق رکھتا ہے جسکو اکثر اصولین در عمل نہیں لاتے اور اس حدیث میں انبیاء علیھم السلام کی خاصیت موجود ہے کہ وہ ایک ہی رات میں جماع کی قوت زیادہ رکھتے ہیں جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی رات میں گیارہ ازواج کے ساتھ جماع کرتے تھے جو صحیح بخاری میں ثابت ہے یہ سب جماع کی قوت ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے!
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ اس حدیث پر اعتراض کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
اب دیکھئے حدیث بالا میں دو باتیں ہی طلوع اسلام کے نزدیک قابل اعتراض ہوسکتی ہیں۔ ایک ننانوے یا سو بیویوں کا ہونا۔ دوسرے ایک رات میں ان سب کے پاس جانا۔
جہاں تک بیویوں کی تعداد کا تعلق ہے۔ تورات سے حضرت داود علیہ السلام کی ۹ بیویاں اور دس حرمیں کل تعداد انیس ثابت ہیں (۲ سموئیل ۱۳/۵) اور حضرت سلیمان کی سات سو جوروئیں اور تین سو حرمیں کل ایک ہزار ثابت ہیں۔(سلاطین ۳/۱۱) بحوالہ رحمۃ للعالمین از سلیمان منصورپوری ج ۲ ص ۱۳۰)
اور ان کی کثرت زوجات کی وجہ سے عیسائیوں نے ان انبیاء کی تقدیس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔ تو اگر اس حدیث میں ننانوے یا سو بیویوں کا ذکر آگیا ہے ، تو اس میں اور کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
حضرت سلیمان علیہ السلام ایک عظیم بادشاہ تھے جن کا محل بھی تھا اور اس محل میں شیشے کا فرش کچھ اس طرح لگا ہوا تھا کہ وہ پانی کی لہریں مارتا سمندر ایک حوض میں بند معلوم ہوتا تھا۔ ہوا اور جنات آپ کے مسخر تھے۔ پرندوں کی بولی سمجھتے اور انہیں بات سمجھا سکتے تھے۔ پھر آپ کا تخت ہوا میں اس تیزی سے اڑتا کہ ایک مہینہ کی مسافت ایک پہر میں طے کر لیتا۔ پھر آپنے ایک نہایت اعلیٰ قسم کے گھوڑے بھی لا تعداد رکھے ہوئے تھے۔ اس شاہانہ شان و شوکت اور کروفر ٹھاتھ باٹھ کے باوجود آپ خلیفہ بھی تھے اور نبی بھی۔ اگر یہ سب باتیں قرآن سے ثابت ہوں تو پہر ان کے حرم میں ننانوے یا سو بیویوں پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
رہی یہ بات کہ کوئی انسان ایک رات میں اتنی بیویوں کے پاس جا بھی سکتا ہے یا نہیں؟ انداز جماع کے وقت میں انزال کے لئے صرف تین منٹ درکار ہوتے ہیں۔ لہزا یہ بات بھی کوئی محیر العقول اور خلاف عقل نہیں جس کا وقوع ناممکنات سے ہو۔ علاوہ ازیں اگر ہم قرآن کی رو سے دوسری بہت سی معجزہ کی قسم سے تعلق رکھنے والی غیر عقول باتیں تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر اس بات کو بھی تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے؟ یہ بات بھی تو آخر نبی ہی سے تعلق رکھتی ہے۔(٥)
ایک اور حدیث امام بخاری نے اپنی صحیح میں اسطرح لائی ہے:۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلَّا ثَلاَثَ كَذَبَاتٍ، ثِنْتَيْنِ مِنْهُنَّ فِي ذَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَوْلُهُ {إِنِّي سَقِيمٌ} [الصافات: 89]. وَقَوْلُهُ: {بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا} [الأنبياء: 63]. وَقَالَ: بَيْنَا هُوَ ذَاتَ يَوْمٍ وَسَارَةُ، إِذْ أَتَى عَلَى جَبَّارٍ مِنَ الجَبَابِرَةِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ هَا هُنَا رَجُلًا مَعَهُ امْرَأَةٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهَا، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ قَالَ: أُخْتِي، فَأَتَى سَارَةَ قَالَ: يَا سَارَةُ: لَيْسَ عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَيْرِي وَغَيْرَكِ، وَإِنَّ هَذَا سَأَلَنِي فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، فَلاَ تُكَذِّبِينِي، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيْهِ ذَهَبَ يَتَنَاوَلُهَا بِيَدِهِ فَأُخِذَ، فَقَالَ: ادْعِي اللَّهَ لِي وَلاَ أَضُرُّكِ، فَدَعَتِ اللَّهَ فَأُطْلِقَ، ثُمَّ تَنَاوَلَهَا الثَّانِيَةَ فَأُخِذَ مِثْلَهَا أَوْ أَشَدَّ، فَقَالَ: ادْعِي اللَّهَ لِي وَلاَ أَضُرُّكِ، فَدَعَتْ فَأُطْلِقَ، فَدَعَا بَعْضَ حَجَبَتِهِ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَمْ تَأْتُونِي بِإِنْسَانٍ، إِنَّمَا أَتَيْتُمُونِي بِشَيْطَانٍ، فَأَخْدَمَهَا هَاجَرَ، فَأَتَتْهُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي، فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ: مَهْيَا، قَالَتْ: رَدَّ اللَّهُ كَيْدَ الكَافِرِ، أَوِ الفَاجِرِ، فِي نَحْرِهِ، وَأَخْدَمَ هَاجَرَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ تِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ(٦)
حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابراہیم ؑ نے صرف تین مرتبہ خلاف واقعہ بات کی ہے۔ ان میں سے دوتواللہ کی ذات ستودہ صفات کے متعلق تھیں۔ پہلے آپ کا یہ کہنا: ’’میں بیمارہوں۔‘‘ دوسری بات ان کا کہنا: ’’بلکہ یہ ان کے بڑے بت نے کیا ہے۔‘‘ اور آپ نے فرمایا: (تیسری بات یہ ہے کہ) ایک دن وہ اور (ان کی بیوی) سارہ (سفرکرتے کرتے ) ایک ظالم بادشاہ کے پاس سے گزرے تو اس (بادشاہ) سے کہا گیا: یہاں ایک مرد آیاہے۔ اس کے ساتھ بہت خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس بادشاہ نے ان کے پاس ایک آدمی بھیجا اور سارہ کے متعلق پوچھا کہ وہ کون ہے؟ انھوں نے (حضرت ابراہیم ؑ نے) جواب دیا: یہ میری بہن ہے۔ اس کے بعد آپ سارہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: اے سارہ! میرے اور تیرے سوا اس سر زمین میں کوئی مومن نہیں ہے۔ اس ظالم بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تھا تو میں نے اسے بتایا کہ تو میری بہن ہے، لہٰذا تونے مجھے جھٹلانا نہیں۔ اس دوران میں اس ظالم نے سارہ کی طرف آدمی بھیجا۔ جب آپ اس کے پاس گئیں تو اس نے اپنے ہاتھ سے سارہ کو پکڑنا چاہا تو وہ زمین میں دھنس گیا۔ اس نے سارہ سے کہا: میرے لیے اللہ سے دعا کرو، میں تجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچاؤں گا۔ سارہ نے اللہ سے دعا کی تو اسے نجات مل گئی۔ اس نے دوبارہ حضرت سارہ کو پکڑنا چاہا تو پہلےسے زیادہ گرفت میں آگیا۔ اس نے سارہ سے کہا: میرے لیے اللہ سے دعا کرو، میں تمھیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ چنانچہ انھوں نے دعا کی تو اس کی خلاصی ہوگئی۔ پھر اس نے اپنے خادم کو بلایا اور کہا: تم میرے پاس انسان نہیں بلکہ کوئی شیطان لائے ہو اور سارہ کو بطور خدمت ہاجرہ دے کر واپس بھیج دیا۔ وہ (حضرت سارہ ان) حضرت ابراہیم ؑ کے پاس واپس آئیں تو آپ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ انھوں نے ہاتھ سے اشارہ کر کے پوچھا: تمھارا حال کیسے رہا؟ سارہ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا فاجرکی تدبیر کو الٹا اس کے خلاف کردیا اور اس نے خدمت کے لیے ہاجرہ بھی دی ہے۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ ؓنے فرمایا: اے آسمانی پانی کی اولاد! تمھاری والدہ یہی ہاجرہ ہیں۔
مودودی نے اس صحیح حدیث کا انکار عجیب و غریب انداز میں کردی چنانچہ کہتا ہے:۔
آپ کے نزدیک حدیث کا مضمون اس لیے قابل قبول ہے کہ وہ قابل اعتماد سندوں سے نقل ہوئی ہے اور بخاری، مسلم، نسائی اور متعدد دوسرے اکابر_محدثین نے اسے نقل کیا ہے۔
میرے نزدیک وہ اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ اس میں ایک نبی کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اور یہ کوئی ایسی معمولی بات نہیں ہے کہ چند راویوں کی روایت پر اسے قبول کر
لیا جائے ۔(٧)
!واضح رہے کہ تین جھوٹوں میں دو جھوٹ قرآن کی نص صریح میں موجود ہے
اس کا واضح مطلب ہے مودودی اصول حدیث اور متن کو سمجھنے میں بھی کورا بندہ تھا۔
____________________________________
(۱): صحیح بخاری ٣٤٢٤
(٢): تفھیم القرآن | ج ٤ ص ۳۳۷
(٣): فتح الباري لابن حجر |ج ٦ ص ٥٤٣
(٤): شرح النووي المسمى المنهاج | ج ٤ ص ١٣٦
(٥): آئینئہ پرویزیت | ص ٧٢٠-٧٢١
(٦): صحیح بخاری ٣٣٥٨
(٧): تفہیم القرآن لمودودی ج3 ص 61، 62