علماء کی زندگی کو غنیمت جانیں – شیخ محمد معاذ أبو قحافة

!الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد

اللہ تعالیٰ کس بات سے راضی ہوتے ہیں اور کس امر سے ناراض ہوتے ہیں، یہ جاننے کے لئے شرعی علم ضروری ہے، اور شرعی علم  کے حصول کے لئے علماء ہی عظیم واسطہ ہیں۔

اہل علم بھی بشر ہیں، لہذا ہم ان کی زندگی کو غنیمت جانیں، قبل اس کے کہ یہ وفات پا جائیں جس قدر ہو سکے استفادہ کرتے رہنا چاہئے۔

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما:۔

جابر بن عبد اللہ(ت 73ھ) رضی اللہ عنہما خود ایک عظیم عالم دین ہیں، مگر رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جب انہیں ایک حدیث پہنچی (روز قیامت بندوں کے درمیان قصاص سے متعلق) اور معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سے براہ راست اس حدیث کو سَماع کرنے والے ایک صحابی ملک شام میں رہتے ہیں، تو صرف ایک حدیث صحابی سے پڑھنے کے لئے ایک اونٹنی خرید کر مدینہ نبویہ سے ملک شام کی طرف ایک ماہ کا سفر کیا، جب وہاں صحابی رسول عبد اللہ بن انیس (ت 54ھ) رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، تو عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ انہیں فرط محبت میں گلے لگا لیا۔

!غور کریں

جابر رضی اللہ عنہ مسافر ہیں، مدینہ نبویہ سے 15 دن کا سفر طے کرکے وہاں پہنچے ہیں، پہلے آرام کرنے، کچھ کھا پی لینے کی بجائے؛ عبد اللہ بن انیس سے کہا: حديثاً بَلَغَني عنْكَ أنّكَ سمِعْتَه مِن رسول الله ﷺ في القِصاص ، میں نے ایک حدیث سنا اور معلوم ہوا کہ آپ ہی ہیں جو اس حدیث کو براہ راست رسول اللہ ﷺ سے سنے ہیں
بس آپ سے براہ راست لینے کے لئے آ پہنچا ہوں، اور حدیث معلوم کرنے میں اس قدر عجلت اور جلدی کا سبب یہ بتایا: فَخَشِيْتُ أنْ تَمُوتَ، أو أموتُ قبلَ أنْ أسْمَعَهُ ۔
یعنی مجھے اس بات کا خوف تھا کہ کہیں آپ کی وفات نہ ہو جائے، یا اس حدیث کو آپ سے سننے سے پہلے میں ہی انتقال نہ کر جاؤں!! ( دیکھئے: مسند احمد : ٢٥/٤٣١، شيخ الألباني ” ظلال الجنة “: میں صحيح کہا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ بھی اپنی صحیح کی کتاب التوحید میں حدیث نمبر 7481 سے معلقاً لائے ہیں )۔

فائدہ:۔
جابر رضی اللہ عنہ اس واقعہ کے بعد بھی تقریباً کم وبیش 20 سال با حیات رہے۔

خطیب بغدادی (ت 463ھ) رحمہ اللہ ( الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع ) میں محمد بن کثیر العبدی البصْری (ت 223ھ) کی طریق سے یہ واقعہ بیان کئے ہیں کہ حافظ الحدیث سفیان بن سعید الثوری (ت 160ھ) جو کوفہ کے رہنے والے تھے، ایک مرتبہ بصرہ تشریف لائے، وہاں حمّاد بن سلمہ بصری (ت 167ھ) کی مجلس میں حاضر ہوئے، اور فوراً ایک حدیث ( بصری سند ) سے متعلق سوال کیا، مجلس ختم ہونے کے بعد، سفیان الثوری کا تعارف ہوا تو حماد بن سلمہ دنگ رہ گئے؛ کیوں کہ سفیان بن سعید الثوری أمير المؤمنين في الحديث ہیں، بلکہ امام نسائی نے کہا: هو أجلّ من أن يقال أنه ثقة .یعنی اس قدر عظیم المرتبت ہیں کہ انہیں کسی سے ثقة کہنے کی ضرورت نہیں۔

حماد بن سلمہ بس نام سنے تھے کبھی دیکھے نہیں تھے، اس لئے مجلس ختم ہونے پر جب تعارف ہوا تو سفیان الثوری سے کہا: آپ پہلے سلام کلام کر لیتے، تعارف ہو جاتا پھر سوال کرتے، تو سفیان ثوری رحمہ اللہ نے کہا:۔
خَشِيتُ أنْ تموتَ قبلَ أنْ أسْمَعَ الحديثَ مِنْكَ
میں حدیث سے متعلق پہلے اس لئے سوال کر لیا کہ کہیں دیگر باتوں کی سبب اصل مسئلہ دریافت کرنے سے پہلے پہلے آپ کی وفات نہ ہو جائے۔

خطیب بغدادی رحمہ اللہ اسی مذکورہ کتاب میں مذکور واقعہ کے فوری بعد اپنی سند سے معروف جلیل القدر عالم دین جو حرّان (شام/سوریا کی شمالی سرحد) کے رہنے والے تھے، ابو جعفر ابن نُفیل ؛ کنیت سے مشہور ہیں، امام احمد بن حنبل، امام ابو داود اور دیگر سبھی محدثین آپ کے قوت حافظہ سے متاثر تھے۔

ابو جعفر بن نفیل کہتے ہیں میرے پاس امام احمد بن حنبل (ت 241ھ) اور یحییٰ بن معین (ت 231ھ) تشریف لائے، اور جب میرے قریب ہوئے تو دونوں نے مجھ سے معانقہ ( گلے لگنا ) کیا۔

جب یحیی بن معین نے معانقہ کیا تو دوران معانقہ ہی میرے استاد کی مرویات سے متعلق سوال کرنے لگے، امام احمد نے ان سے کہا: معانقہ کر لیں، سکون سے بیٹھ جائیں پھر سوال کریں 

ابن معین نے کہا: کیا خبر کہ معانقہ کرنے تک استاد محترم زندہ رہیں! أكْرَهُ أنْ تَموتَ أو تُفارقَ الدّنيا قبلَ أنْ أسْمَعَهُ

نوٹ:۔
ہم جس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں، اہل علم سے دوری اور جو بے نیازی ہم برت رہے ہیں، اس وجہ سے مذکورہ واقعات ہمیں مبالغہ آرائی اور کہانیاں لگتی ہیں۔
جب کہ وہ واقعات میرے اور آپ کے وجود کی طرح حقائق ہیں۔

اہل علم سے استفادہ کرنے میں پیش قدمی ہو، موقع کی تاک میں رہیں، قبل اس کے کہ ان کی وفات ہو جائے۔

محمد معاذ أبو قحافة
١٠ ربيع الأوّل ١٤٤٠ ھ ليلة الإثنين

Share:

Leave a Reply