عقل، شعور و آگہی؛ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہے۔ چھوٹی عمر میں شعور ہو، ٹھوس عقل ہو، حافظہ مضبوط ہو، آغاز ہی سے زندگی کا مقصد طے ہو، اور پھر ان سب صلاحیتوں کا استعمال دینِ اسلام کے لئے کرنے کی توفیق ہو جائے تو اس سے بڑی سعادت کیا ہو سکتی ہے، لمبی عمر اصل نہیں جو زندگی میسر ہو اس کو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں لگانا اصل ہے۔
ہماری چودہ سو سالہ تاریخ میں صحابہ، تابعین، محدثین وفقہاء، ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے نہایت ٹھوس علمی خدمات انجام دے چکے ہیں، مگر چالیس (40) سال کی عمر بھی انہیں مل سکی ۔
ابھی پچھلے دو دہائی قبل ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے، کتاب کا نام ہے (( العُلَماءُ الّذينَ لَمْ يَتَجَاوَزُوا سِنَّ ٱلْأَشُدِّ )) یعنی وہ علماء جنہوں نے جوانی مکمل ہونے اور پختگی کی عمر پانے سے پہلے ہی وفات پاگئے۔
کتاب کے مصنف علی بن محمد العمران ہیں۔ اس کتاب میں (147) علماء کے اسمائے گرامی ہیں، مختصراً ان کا تعارف کرایا گیا۔
١) ذہانت و فطانت
٢) حفظ واتقان
٣) طلبِ علم میں جدّ وجہد
٤) تصنیف وتالیف۔ یہ اور اس طرح کی خوبیوں کے مالک مترجَمین ہیں
:مُعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ
اس کتاب کا آغاز معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کیا گیا ہے:۔
١)- معاذ بن جبل بن عمْرو نام ہے، اور ابو عبد الرحمن کنیت۔
٢)- انصاری صحابی ہیں، اور خزْرج قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
٣)- بیعتِ عقبہ میں شریک تھے، اور رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو اس وقت آپ صرف 18 سال کے تھے، آپ کو داڑھی بھی نہیں تھی۔
٤)- رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سبھی غزوات میں شریک تھے۔
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا علم:۔
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے عہد ہی میں بنو سلَمہ کی مسجد میں امامت کیا کرتے تھے، یہ قبیلہ جہاں آج مسجد قبلتین ہے وہیں آباد تھا۔ ( صحيح البخاري : 711)۔
رسول اللہ ﷺ نے آپ کا نام لے کر کہا ان سے قرآن مجید سیکھا کریں۔ ( صحيح البخاري : 3806)۔
رسول اللہ ﷺ معاذ بن جبل کی امتیازی خوبی بیان کرتے ہوئے کہا جب معاذ رضی اللہ عنہ 30 سال سے بھی عمر کے تھے: « أَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَٱلْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ »، حلال وحرام کا زیادہ علم رکھنے والے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔
سنن الترمذي : 3790، صححه الشيخ الألباني رحمه الله)۔)
جب مکہ فتح ہوا، تو واپسی پر رسول اللہ ﷺ معاذ بن جبل کو مکہ ہی میں چھوڑ آئے تاکہ وہاں لوگوں کو تعلیم دے سکیں۔
غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد سنہ 10ھ میں حج الوداع سے قبل رسول اللہ ﷺ نے آپ کو یمن کے بعض علاقوں میں بحیثیت معلّم اور گورنر بنا کر بھیجا۔
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ محض 6 سال کی مدّت میں زکاة کے نظام کو استعمال کرتے ہوئے اپنے علاقے کی غربت کو ختم کر دئے تھے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سنہ 16ھ ملک شام فتح ہوا، تو وہاں کے گورنر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب سے مطالبہ کیا کہ یہاں مسلمان بڑی تعداد میں ہیں مگر انہیں دین سکھانے والے نہیں ہیں، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جن علماء کا وہاں بھیجا ان میں سے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: «يَا مُعَاذُ، وَاللّٰهِ إِنِّيْ لَأُحِبُّكَ»، اے معاذ! قسم اللہ کی، مجھے تم سے محبت ہے۔
سنن أبي داود : 1522، صححه الشيخ الألباني رحمه الله)۔)
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ سے بہت متاثر تھے، آپ سے مشورہ کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ کہا: عَجَزَتِ النِّساءُ أنْ يَلِدْنَ مِثْلَ مُعَاذٍ . مائیں اب معاذ جیسے بچوں کو جننے سے عاجز آ چکی ہیں۔
ایک مرتبہ کہا: لَوْلَا مُعاذٌ لَهَلَكَ عُمَرُ . میری زندگی میں آنے والے مسائل کے حل کے لئے معاذ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو گیا ہوتا۔
ایک موقع آیا ملک شام فتح ہو گیا تھا، وہاں جابیہ نامی علاقے میں عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: مَنْ أَرَادَ الفِقْهَ فَلْيَأْتِ مُعاذَ بْنَ جَبَلٍ . جسے علم دین حاصل کرنے کا ارادہ ہو اس کو چاہئے کہ معاذ بن جبل کی شاگردی قبول کرلے۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ معاذ ایک فرد نہیں بلکہ ایک جماعت تھے۔
رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں جو مخصوص صحابہ فتویٰ دیا کرتے تھے ان میں معاذ بن جبل بھی تھے۔
صحابہ کسی علمی مسئلے میں گفتگو کرتے اور ان میں معاذ بن جبل بھی ہوتے تو ان کی علمی ہیبت کی وجہ سے کوئی گفتگو نہ کرتے۔
آخری بات
سنہ 18ھ میں اردن (عَمّان) میں طاعون کی وجہ سے آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کے سامنے آپ کی بیوی کی وفات ہوئی، پھر دو بچوں کی وفات *بالآخر آپ کا بھی صرف 36 سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔
محمد معاذ أبو قحافة
١٣ جُمادي الأولى ١٤٤٠ھ الأحد