امیر المؤمنین عمر بن خطاب کے جذبات – شیخ محمد معاذ أبو قحافة

تابعداری )) انسان سے مطلوب، اور یہ بہت عظیم وصف ہے، اعزاز ہے، بلکہ عُلُوِّ مرتبت کی دلیل ہے۔ ))

جذبات کا ہونا، اور جذبات کو گرم رکھنا بہت ضروری ہے، تاہم جذبات شریعت کے تحت ہونا چاہئے، اللہ تعالیٰ کا فرمان آ جائے، رسول اللہ ﷺ کی بات ہو تو جذبات کو اس کے موافق کر ڈھالنے کا نام ہی (( مسلمان )) ہے۔

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ:۔

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے جذبات نہایت اعلیٰ تھے، بلکہ آپ کے شخصی اوصاف وکمالات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ بار گاہ نبوی سے انھیں فاروق کا خطاب ملا۔

١)- عمر بن خطاب بن نفیل القرشی العدوی؛ نام ہے۔
٢)- ابو حفص کنیت، اور فاروق لقب ہے۔
٣)- عام الفیل کے تیرہ سال بعد آپ کی ولادت ہوئی۔
٤)- نہایت خوبصورت، طاقتور، دلیر اور بہادر تھے۔ خود دار تھے۔ بلند اور گرج دار آواز تھی۔
٤)- قبول اسلام سے پہلے ہی پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔
٥)- بچپن ہی سے ذمہ دار فرد کی حیثیت سے پہچانے گئے۔
٦)- پچپن اور جوانی غربت میں گذری۔
٧)- ایک وقت آیا کامیاب تاجر بن گئے۔
٨)- قبول اسلام کے وقت 26 سال عمر تھی۔
٩)- رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے، کسی غزوے سے غیر حاضر نہ رہے۔
١٠)- دس سال خليفة المسلمين رہے، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے افضل ہیں۔ یکم محرم24 ہجری کو آپ کا انتقال ہوا۔

عمر بن خطاب کے جذبات:۔

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے جذبات ہمیشہ گرم اور تیز ہی رکھتے تھے، تاہم شریعت کی تابعداری سے کبھی خروج نہیں کیا، رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے آگے ایک حرف نہیں کہا ایک قدم نہیں آگے نہیں گئے۔

غور کریں

عبد اللہ بن صیّاد:۔

ابن صیّاد ایک یہودی لڑکا تھا جو مدینہ میں دجل وفریب کی باتیں کرکے لوگوں کو گمراہ کرتا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ اس کو قتل کرنا چاہتے تھے کیوں کہ انھیں شبہ تھا یہ دجال اکبر ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انھیں منع کر دیا۔
( صحيح البخاري: 1354، صحيح مسلم: 2924 )

عبد اللہ بن ابیّ بن ابی سلول:۔

منافقین کا سردار عبد اللہ بن ابیّ کا بد کردار ہونا واضح ہے، اس کی شرارتیں، خباثتیں معروف ہیں۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس کی گردن بھی بدن سے جدا کرنے کا ارادہ کیا رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا۔
( صحيح البخاري: 4905، صحيح مسلم: 2584 )

عبد اللہ بن ذی الخُوَیصرَۃ:۔

رسول اللہ ﷺ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے، عبد اللہ بن ذی الخُوَیصرَۃ نے اس تقسیم پر اعتراض کیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی غیرت جواب دی گئی، آپ اس شخص کو قتل کرنے کا ارادہ کیا، رسول اللہ ﷺ نے منع کر دیا۔
( صحيح البخاري: 6933، صحيح مسلم: 1063 ).

حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ:۔

ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ایک مخلص صحابی حاطب رضی اللہ عنہ، سے فتح مکہ سے پہلے ایک چوک ہو گئی تھی، وہ بدری صحابی ہیں، مہاجر بھی ہیں۔
عمر بن خطاب رضی اللہ ان کے اس راز افشا کرنے کی وجہ سے منافق سمجھ کر قتل کرنے کا ارادہ کیا مگر رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا۔
(صحيح البخاري: 3007، صحيح مسلم: 2494)

محترم قارئین:۔

مذکورہ چاروں واقعات صحیحین میں موجود ہیں، ان چاروں واقعات میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک ہی جملہ پڑھنے کو ملتا ہے:۔

دَعْنِيْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ

اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن اڑادوں۔

لمحۂ فکریہ:۔

!عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا جذبات پر قابو پانے کی کیفیت ملاحظہ فرمائیں
غصہ پر کنٹرول، غَیرت کا درست اظہار، اور جذبات کو رسول اللہ ﷺ کے حکم اور فرمان کے تحت ہی رکھتے تھے۔
ایسا کبھی نہیں ہوا کہ جذبات میں آ کر کسی کی گردن اڑادئے ہوں، کسی کو برا بھلا کہہ دیا ہو، یہ صفت تو مذموم ہے، کچے جذبات خسارہ ہی کا باعث بنتے ہیں۔ مگر عمر بن خطاب رضی اللہ اعلیٰ صفات اور ممتاز اوصاف کے مالک تھے۔

صحیح البخاری کی (( کتاب التفسیر )) (نمبر: 4642) میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایمان افروز واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں عُیَیْنہ بن حِصْن نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا:۔
اے خطاب کے بیٹے! اللہ کی قسم، نہ تم ہمیں مال دیتے ہو اور نہ عدل کے مطابق فیصلے ہی کرتے ہو۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اس بات پر بہت غصّہ آیا، اور اس کو مارنے کے لئے آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ حُرّ بن قيس نے فوراً کہا:۔

امیر المؤمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:۔
خُذِ ٱلْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ ٱلْجَاهِلِيْنَ﴾۔)
آپ در گزر اختیار کریں، نیک کام کی تعلیم دیں، اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں۔ ( الأعراف : 200 )۔

حُرّ بن قیس نے کہا: بلا شبہ یہ بھی جاہلوں میں سے ہے۔

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:۔
وَاللّٰهِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِيْنَ تَلَاهَا عليه، وَكَانَ وَقَّافاً عِنْدَ كِتابِ اللّٰهِ۔
اللہ کی قسم! جب حُر بن قیس نے اس آیت کی تلاوت کی تو عمر رضی اللہ عنہ وہیں رُک گئے۔ واقعی عمر رضی اللہ عنہ کتاب اللہ کا حکم سن کر فوراً گردن جھکادینے والے تھے۔

محمد معاذ أبو قحافة
٦ جُمادي الأولى ١٤٤٠ھ ليلة الأحد۔

Share:

Leave a Reply