کیا سید قطب واقعی حاکمیت کی اصطلاح استعمال کرنے میں خوارج کے منہج پر مصر تھا – ابو راکان شاھد الإسلام

امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں خوارج کے تعلق سے ایک حدیث درج کی ہے جو انکی کج فھمی اور نصوص کو اپنی مانی تفسیر کرنے کو واشگاف کر دیتی ہے۔

عن بسر بن سعيد عن عبيد الله بن أبي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الحرورية لما خرجت وهو مع علي بن أبي طالب رضي الله عنه

قالوا: لا حكم إلا لله

قال علي : “كلمة حق أريد بها باطل”۔

بسر بن سعيد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلا م حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے عبید اللہ سے روایت کی کہ جب حروریہ نے خروج کیا اور وہ(عبیدہ اللہ) حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا تو انھوں نے کہا حکومت اللہ کے سوا کسی کی نہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :۔

“یہ کلمہ حق ہے جس سے با طل مراد لیا گیا ہے۔”

امام نووی رحمہ اللہ حاشیہ کے تحت لکھتے ہیں:۔

قوله : ( قالوا لا حكم إلا لله ، قال علي : كلمة حق أريد بها باطل ) معناه أن الكلمة أصلها صدق ، قال الله تعالى : إن الحكم إلا لله لكنهم أرادوا بها الإنكار على علي رضي الله عنه في تحكيمه (1)۔

ان کی یہ بات حکومت اللہ کے سوا کسی کی نہیں، علی رضی اللہ عنہ کے جواب کا معنی یہ ہے کہ بات اصل کے اعتبار سے سچ ہے ، اللہ کا فرمان ہے “حکم صرف اسی کے لئے ہے” لیکن حروریہ خوارج اسے علی رضی اللہ عنہ پر حاکم ہونے کا انکار باور کرانا چاہتے تھے۔

اب قطب مصری کی حاکمیت کو الوہیت کا اخص خصائص کی تفسیر بتاتے ہوئے اس کی اپنی مشہور کتاب معالم فی الطریق میں ملاحضہ کیجئے ، لکھتے ہیں:۔

هذه الجاهلية تقوم على أساس الاعتداء على سلطان الله في الأرض و على أخص خصائص الألوهية و هي الحاكمية إنها تسند الحاكمية إلى البشر فتجعل بعضهم لبعض أربابا ، لا في الصورة البداية الساذجة التى عرفها الجاهلية الأولى ، ولكن في صورة ادعاء حق وضع التصورات والقيم، والشرائع والقوانين والأنظمة والأوضاع بمعزل عن منهج الله للحياة فيما لم يأذن به الله (2)۔

اس (جدید) جاہلیت کی بنیاد زمین میں اللہ کے اقتدار اور الوہیت کے اخص خصائص (یعنی حاکمیت) پر دست درازی پر قائم ہے، یہ حاکمیت کا سزاوار بشر کو قرار دیکر بعض انسانوں کو بعض کا رب تسلیم کرتی ہے، یہ کام اس ابتدائی اور سادہ طریق پر نہیں ہوتا جیسا کہ قدیم جاہلیت کا دستور تھا، بلکہ یہ تو اس بات کی دعویدار ہے کہ بشر کو مستقلا (الٰہی نظام حیات سے الگ اور اللہ کی مرضی کے خلاف) تصورات و اقدار ، شرائع و قوانین اور نظام و فلسفہ کے وضع کرنے کا حق حاصل ہے۔

(1) صحیح مسلم مع شرح النووی ج 3 ص 189 , كتاب الزكاة باب التحريض على قتل الخوارج

 معالم في الطريق ص 8 (2)

Share:

Leave a Reply